پاکستان کی قومی اسمبلی نے انتخابی اصلاحات کا مجوزہ قانون منظور کر لیا ہے جس کا مقصد قانون سازوں کے بقول ملک میں آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات کو یقینی بنانا ہے۔
منگل کو پارلیمان کے ایوانِ زیریں میں "الیکشن بل 2017" کی شق وار منظوری کا عمل شروع ہوا اور 241 میں سے 155 شقووں کو اتفاقِ رائے جب کہ 86 شقووں میں پیش کی گئی ترامیم میں سے اکثریت کو کثرتِ رائے سے مسترد اور بعض کو منظور کر لیا گیا۔
تقریباً ڈھائی سال کی طویل مشاورت کے بعد یہ مسودہ قانون تیار کیا گیا تھا جسے گزشتہ ہفتے ہی ایوان میں پیش کیا گیا۔
منظور کیے گئے مسودہ قانون کے تحت الیکشن کمیشن انتظامی اور مالی طور پر ایک خودمختار ادارہ ہو گا جب کہ جس شہری کا کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ بنے گا تو ساتھ ہی اس کے ووٹ کا اندراج بھی ہو جائے گا۔
مزید برآں انتخابات سے چھ ماہ قبل الیکشن کمیشن اس بارے میں ضوابط تیار کرے گا جس میں ضابطہ اخلاق اور امیدواروں کے لیے انتخابی مہم کے اخراجات کی حد بھی متعین کی جائے گی۔
مشین کے ذریعے ووٹنگ اور ووٹرز کی بائیومیٹرک تصدیق کے نظام کو ضمنی انتخابات میں تجرباتی طور پر استعمال کیا جائے گا جس کے بعد ہی اسے عام انتخابات میں رائج کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔
مسودہ قانون میں عبوری حکومت سے متعلق بھی شق موجود ہے جس کے تحت نگران حکومت صرف روز مرہ کے غیر متنازع امور ہی انجام دے گی اور سوائے اشد ضرورت کے اسے پالیسی سے متعلق بڑے فیصلوں کا اختیار نہیں ہو گا۔
سیاسی جماعتوں کے لیے ضروری ہو گا کہ وہ عام انتخابات میں کم از کم پانچ فیصد انتخابی ٹکٹ خواتین امیدواروں کو جاری کریں۔
حزبِ مخالف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف نے اپنی تجاویز منظور نہ کیے جانے پر اجلاس سے واک آؤٹ کیا۔