عام طور پر کہا جاتا ہے کہ سیاست، محبت اور جنگ میں ہر چیز جائز ہوتی ہے۔ کیا واقعی؟ اس بات اور اس سوال نے پنجاب میں ہونے والے حالیہ ضمنی انتخاب میں یہ ثابت بھی کیا کہ یہ بات اتنی غلط بھی نہیں۔
اس بار پنجاب کے ضلع مظفر گڑھ کا ایک حلقہ ایسا بھی تھا جہاں سگی ماں کا مقابلہ اس کے اپنے بیٹے سے ہوا۔ اور جیت ماں کا مقدر ٹہری۔ ماں نے کسی اور کو نہیں ہرایا۔ ہرایا بھی تو اپنے ہی سگے بیٹے کو۔
اور دوسری طرف بیٹے کا سامنا پہلے تو اپنے بھائی اور دوسرے حریفوں سے ہوتا ہی آیا ہے، لیکن اس بار اس کا مقابلہ اپنی ماں سے تھا اور وہ بھی اپنی ماں کے مقابلے میں دستبردار نہیں ہوا ۔ الیکشن لڑا اور آخری وقت تک لڑا ۔
یہ سب مظفرگڑھ کی تحصیل جتوئی کے صوبائی حلقہ پی پی 272 کے ضمنی انتخاب میں ہوا۔ عوام نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا اور الیکشن کمشن کے مقرر کردہ ریٹرننگ آفیسر کے جاری کردہ نتائج کے مطابق ماں نے اپنے بیٹے کو 8 ہزار 899 ووٹ سے شکست دی۔
نتائج سے ہٹ کر جنوبی پنجاب کے اس حلقہ میں لوگوں کی توجہ صرف اسی بات پر رہی کہ ایسا کیا ہے اور کیوں ہوا ہے کہ ماں بیٹا ایک دوسرے کے مقابلے پر آ گئے۔
یہ کوئی عام فیملی نہیں۔ مظفر گڑھ کی تحصیل جتوئی کی سید فیملی ہے۔ عبداللہ شاہ بخاری اس علاقے سے کئی بار ایم پی اے منتخب ہوئے۔ اب وہ اس دنیا میں نہیں رہے، لیکن ان کے بیٹے مخدوم سید باسط سلطان بخاری اور ہارون سلطان بخاری ان کی سیاست کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ مخدوم باسط سلطان بخاری اس وقت بھی ایم این اے ہیں اور پی ٹی آئی میں ہیں اور صوبائی اسمبلی کی سیٹ انہوں نے جیت کر چھوڑ دی اور اس پر ہی یہ ضمنی الیکشن ہوا ہے۔
ان کے بھائی ہارون سلطان بخاری دوبار صوبائی وزیر رہے ہیں۔ دونوں بھائیوں کے باہمی جھگڑے نے ان کی سیاسی راہیں الگ کردی ہیں۔ مخدوم باسط سلطان بخاری مسلم لیگ نون کو چھوڑ کر جنوبی پنجاب صوبہ محاذ میں شامل ہوئے اور پھر اس محاذ کے ہی پی ٹی آئی میں ضم ہونے کے بعد وہ بھی اس کا حصہ بن گئے۔
دوسری طرف ہارون سلطان بخاری مسلم لیگ نواز کے ساتھ کھڑے رہے لیکن یہ ضمنی الیکشن وہ آزاد حیثیت میں لڑے۔ البتہ ہوا یہ کہ مسلم لیگ نون نے وہاں اپنا امیدوار کھڑا نہیں کیا تھا۔
اس غیر معمولی اور علاقہ کی روایت سے ماں بیٹے کی اس انتخابی جنگ پر تجزیہ اور کالم نگار خالد مسعود خان کا کہنا ہے کہ مشرقی، اسلامی اور علاقہ کی روایت کے مطابق لوگ یہ توقع نہیں کر رہے تھے کہ ایسا ہو جائے گا کہ کوئی ماں اپنی مامتا کو ایک طرف رکھ دے یا کوئی بیٹا ماں جیسی شفیق ہستی کے مقابلے میں انتخاب لڑنے کے لیے کھڑا ہو جائے۔
وہ کہتے ہیں کہ ہمارے علاقے میں خاص طور پر جنوبی پنجاب میں، جو رشتے ہیں ہم کلیم کرتے ہیں وہ اتنے ابھی سیاست زدہ نہیں ہوئے کہ رشتوں کا احترام ختم ہو جائے۔ اس چیز کو پولیٹیکل حوالے سے آپ جس طرح مرضی دیکھیں لیکن ہماری روايات کے حوالے سے یہ اچھا نہیں ہوا۔ اگر بیٹا جیت بھی جاتا تو میں سمجھتا ہوں کہ وہ اس کی ہار ہوتی، خیر وہ تو ویسے بھی ہار گیا ہے۔ اس الیکشن میں بیٹا نہیں بلکہ ایک پورا ایک رشتہ ہارا ہے جو ماں اور بیٹے کے درمیان ہوتا ہے۔
علاقے کے لوگوں کے مطابق یہ ان کے لئے ایک بڑا امتحان تھا کہ وہ ماں کو ووٹ دیں یا بیٹے کو۔ خاص طور پر اس خاندان سے جڑے ووٹرز پریشان نظر آئے کہ وہ کیا کریں۔
مقامی صحافی ابرار رانا کے مطابق حلقے کے لوگ اس صورت حال کا ذمہ دار دونوں بھائیوں کو ٹہرا تے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ والد کی وفات کے بعد دونوں بھائیوں کے درمیان اختلاف سیاسی بھی ہے اور جائیداد پر بھی۔ یہ ذاتی لڑائی اب انتخابی لڑائی بنی اور اس میں والدہ اپنے ایک بیٹے مخدوم باسط سلطان کے ساتھ کھڑی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اس بارے میں ملی جلی رائے ہے۔ کچھ لوگ کہ رہے ہیں کہ والدہ کو نہیں لڑنا چاہیے تھا۔ کچھ کہہ رہے ہیں کہ والدہ کو ڈھال بنا کر استعمال کیا گیا ہے۔ اگر انہیں ایم این اے بیٹے نے لڑوانا تھا تو اپنی اہلیہ زہرہ باسط کو لڑواتے جو پہلے بھی پی ٹی آئی کی ٹکٹ پر الیکشن لڑ چکی ہیں، کیونکہ والدہ دونوں کی ہے ایک بیٹے نے ڈھال کے طور پر اپنی ماں کو استعمال کیا۔ دوسرے کہتے ہیں کہ بیٹے نے نافرمانی کی ہے۔ ان کو لڑنا نہیں چاہیے تھا نہ ہی دوسرے گروپ میں جانا چاہیے تھا۔ بس یہ اپنی ماں کے حق میں بیٹھ جاتے اور ان کی انتخابی مہم چلاتے۔
سیاست بے رحم اور ظالم ہوتی ہے یا معاملہ کچھ اور ہوتا ہے اور مورد الزام بےچاری سیاست ٹہرتی ہے۔ اس کا جواب کچھ بھی ہو لیکن ماں اور بیٹے کے اس انتخاب نے اس حلقے اور اس کے نتیجے پر بہت سے لوگوں کی توجہ حاصل کئے رکھی۔