اقوام متحدہ کے عہدے داروں نے کہا ہے کہ جنوبی سوڈان کی خانہ جنگی میں اب تک 82 امدادی کارکن ہلاک اور 35 لاکھ افراد بے گھر چکے ہیں۔
اپنی آزادی کے دو سال کے بعد دسمبر 2013 میں صدر سالوا کیر اور اس وقت کے نائب صدر ریاک مشار کے درمیان اختلافات کے نتیجے میں تشدد بھڑک اٹھا تھا۔
سن 2015 میں دونوں کے درمیان طے پانے والےامن معاہدے کا کبھی بھی پوری طرح احترام نہیں کیا گیا۔ان دونوں کے درمیان جولائی 2016 میں دوبارہ تشدد بھڑک اٹھا جو ملک کے ایک بڑے علاقے میں پھیل چکا ہے۔
جنوبی سوڈان کے لیے اقوام متحدہ کے نمائندے اور انسانی حقوق کے کو آرڈی نیٹر یوجن اوسو نے کہا ہے کہ دسمبر 2013 میں تشدد کے آٖٖغاز کے بعد سے اب تک جنوبی سوڈان میں 82 امدادی کارکن مارے جاچکے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق تقریباً 19 لاکھ ملک کے اندر بے گھر ہیں جب کہ 16 لاکھ افراد ہمسایہ ملکوں میں پناہ گزین بن کر زندگی گذار رہے ہیں۔
تشدد کے واقعات کا زیادہ تر محرک نسلی اختلافات ہیں کیونکہ سرکاری فوجی زیادہ تر صدر کیر کی کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ سابق نائب صدر مشار نیر کی کمیونٹی اور دوسرے چھوٹے گروپس کے ساتھ لڑ رہے ہیں۔
حالیہ ہفتوں میں ہونے والی لڑائیوں نے جنوبی سوڈان کے ایکو ٹوریا علاقے کے قصبوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور وہاں سے جان بچا کر بھاگنے والے لوگوں کا کہنا ہے کہ سرکاری فوجی بڑے پیمانے پر قتل و غارت کر رہے ہیں اور شہریوں کے گلے کاٹ رہے ہیں۔
امدادی کارکنوں کا کہنا ہے کہ فروری اور مارچ کے مہینوں میں ملک کے کئی علاقوں میں امدادی سامان لوٹ لیا گیا۔
برطانیہ کا کہنا ہے کہ جنوبی سوڈان میں ہلاکتوں کی سطح نسل کشی تک پہنچ گئی ہے جب کہ اقوام متحدہ کی جانب سے ابھی اس کا تعین ہونا باقی ہے۔