عید الاضحٰی کےموقع پرمصرمیں جہاں جانوروں کی قربانیاں دی جا رہی ہیں وہیں مصریوں کو وہ قربانیاں بھی یاد آ رہی ہیں جو اُن کے ہم وطنوں نے اِس سال اُنھیں آمریت سےنجات دلانے کے لیے دی ہیں۔
ایسے میں جب عید قریب ہے، قاہرہ کی سیّد زینب مسجد کے قرب و جوار کی قدیم تنگ گلیوں میں دکان لگانے والے قصاب احمد اُن افراد کویاد کر رہے ہیں جِنھوں نے گزشتہ برس مصری انقلاب میں اپنی جانیں گنوائیں۔
قربانی اِس عید کا ایک اہم جُزو ہے۔ لیکن، مصریوں نے محض اپنی جانیں ہی قربان نہیں کیں، مالی قربانیاں بھی دیں۔ مصر کی معیشت کا حال خراب ہے اور نوجوانوں پر اُس کا براہِ راست اثر پڑ رہا ہے۔
البتہ، مصر میں ایسے لوگ بھی ہیں جِن کا خیال ہے کہ یہ قربانیاں بیرونی مفادات کے لیے مغربی طاقتوں کے ایما پر دی جا رہی ہیں۔ احمد کے ساتھی قصاب ابو بکر محمد ایسے ہی لوگو ںمیں شامل ہیں۔
اُن کا کہنا ہے کہ 2006ء میں عید الاضحٰی کے پہلے روز عراق کے سابق صدر صدّام حسین کی جان لی گئی، جبکہ لیبیا کے معمّر قذّافی کو بھی اُن کے مطابق ’قربان‘ کر دیا گیا۔ اُن کا خیال ہے کہ عرب ممالک کو ایک دوسرے کا ساتھ دینا چاہیئے، کیونکہ ہر سال مزید ممالک اُن سے چھینے جا رہے ہیں۔
مصر میں صدر حسنی مبارک کا تختہ الٹنے کے بعد حالات ابہام کا شکار ہیں۔ جبکہ عوام کی الجھن میں اضافہ ہو رہا ہے اور لوگ مختلف عوامل کو اِس صورتحال کا قصوروار ٹھہرا رہے ہیں۔
کچھ تو ایسے ہیں جو مسٹر محمد کی طرح بیرونی طاقتوں پر انگلیاں اُٹھا رہے ہیں، جبکہ دوسرے لوگوں کی تنقید کا نشانہ اُن کے اپنے لیڈر ہیں، جِن پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ وہ عوام کو بہتر زندگی فراہم کرنے کے اپنے وعدوں سے مکر گئے ہیں۔
اِسی بازار میں گھومتے ہوئے یحیٰی کے ہاتھوں میں قربانی کی گائے کی رسّی ہے۔ یحیٰی کا خیال ہے کہ ابھی مصریوں کو مزید قربانیاں دینی ہوں گی اوریہ کہ بہتر زندگی کے حصول میں وقت لگے گا۔ وہ ناامّید نہیں بلکہ اُن کے خیال میں اُن کا ملک ترقی کرے گا، ایک نئے صدر اور نئی پارلیمان اور بہتر آئین اُن کا مستقبل بنے گا۔ لیکن، اُن کے بقول، اِس منزل تک پہنچنے کےلیے صبر کی ضرورت ہے۔