رسائی کے لنکس

مصر کی بدلتی صورت پر اسرائیل اور فلسطین کی کڑی نظر


مصر کے فوجی حکمران نیوز کانفرنس کے دوران (فائل فوٹو)
مصر کے فوجی حکمران نیوز کانفرنس کے دوران (فائل فوٹو)

فتح تحریک جو مغربی کنارے اور فلسطینی اتھارٹی کو کنٹرول کرتی ہے، مصر کے انتخاب کو کسی قدر مختلف انداز سے دیکھتی ہے۔ فتح اور فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کے ساتھ مصر کے سابق صدر حسنی مبارک کے تعلقات اچھے تھے لیکن مبارک کی حکومت حماس کو شک و شبہے کی نظر سے دیکھتی تھی۔

مصر میں صدارتی انتخاب کے بعد فوج اور اسلام پسندوں کے درمیان محاذ آرائی پر اسرائیل اور فلسطینی علاقوں میں مصر کے ہمسایے کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں۔

مستقبل میں مصر کے ساتھ تعلقات کے بارے میں اسرائیلی اور فلسطینی گروپوں کے درمیان بہت سی رائیں پائی جاتی ہیں اگرچہ اس نکتے پر سب متفق ہیں کہ یہ تعلقات بدستور اہم رہیں گے۔

اخوان المسلمین نے دعویٰ کیا کہ مصر کے اگلے صدر کے انتخاب کا دوسرا مرحلہ، اس کے امیدوار محمد مرسی نے جیت لیا ہے۔ مصر کی مسلح افواج کی حکمران سپریم کونسل نے کہا کہ وہ انتخاب کے نتیجے کو قبول کر لے گی لیکن اس نے صدر کا اختیار کم کر دیا ہے اور قانون سازی کے اختیارات خود کو منتقل کر دیے ہیں جب کہ منتخب پارلیمینٹ تحلیل کر دی گئی ہے۔

یوں اس فوجی فرمان سے طاقت کے دو روایتی ذرائع یعنی فوجی بیرکوں اور مسجد کے درمیان، تصادم کا امکان پیدا ہو گیا ہے۔

اسرائیل اس صورتِ حال پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہے۔ اس کے لیڈروں کے لیے وہ امن معاہدہ بہت اہم ہے جس پر اس نے 33 سال پہلے مصر کے ساتھ دستخط کیے تھے۔ تعلقات میں سرد مہری کے با وجود یہ معاہدہ ان دو ہمسایہ ملکوں کے درمیان، سیکیورٹی، کاروباری تعلقات، ٹرانسپورٹیشن، توانائی اور سفارتکاری جیسے بہت سے شعبوں میں تعاون کی بنیاد ہے۔

حال ہی میں اسرائیلی وزیرِاعظم بنجامن نیتن یاہو نے اس خیال کا اعادہ کیا۔ اُنھوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ مصر میں جو بھی حکومت بنے گی، جو بھی صدر منتخب ہوگا، وہ امن سمجھوتے پر قائم رہنے کا فیصلہ کرے گا۔ اس امن سمجھوتے سے مصر کوبھی اتنی ہی مدد ملی ہے جتنی اسرائیل کو ملی ہے اور انہیں امید ہے کہ اگلی حکومت یہ بات سمجھے گی کہ یہ معاہدہ جتنا اسرائیل کے مفاد میں ہے اتنا ہی مصر کے مفاد میں بھی ہے۔

اخوان المسلمین نے جو مصر کی برطرف شدہ پارلیمینٹ پرچھائی ہوئی تھی کہا ہے کہ وہ تمام سابقہ معاہدوں کا احترام کرے گی۔ لیکن اس کے بعض ارکان نے یہ تجویز دی ہے کہ اسرائیل کے ساتھ سمجھوتے کو عوامی ریفرینڈم کے لیے پیش کر دیا جائے جہاں اس سمجھوتے کا مستقبل کہیں زیادہ غیریقینی ہو جائے گا۔

دوسری اہم بات جس پر اسرائیل کو تشویش ہے وہ مصر کے جزیرہ نما سنائے کے سرحدی علاقے میں بڑھتی ہوئی لا قانونیت ہے۔ مصر میں ہنگاموں کے بعد اس علاقے میں اسمگلنگ، انسانوں کی تجارت اور سرحد پار دہشت گردی کے حملوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔ مشرقی یروشلم میں ایک فلسطینی تجزیہ کار مہدی عبد الہادی نے کہا ہے کہ اسرائیل مصر کے واقعات پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہے۔

’’یوں سمجھیے کہ اسرائیلی حکومت ایک مورچے میں بیٹھی ہوئی ہے اور حالات پر نظر رکھے ہوئے ہے وہ ادھر اُدھر سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور مختلف منظر نامے تیار کر رہی ہے، آج کے لیے نہیں، بلکہ اب سے آنے والے پانچ برسوں کے لیے۔‘‘

اخوان نے انتخاب میں فتح کا دعویٰ کیا توغزہ کی پٹی میں جس پر اسلام پسند حماس تحریک کا کنٹرول ہے جشن منایا گیا۔

حماس کے لیڈر اسمٰعیل رضوان کہتے ہیں کہ گذشتہ سال کی عوامی تحریک کے بعد جب سے اخوان ایک طاقت بن کر ابھرے ہیں، مصر کے ساتھ تعلقات اچھے ہو گئے ہیں۔ انہیں امید ہے کہ مصر ،غزہ کی اسرائیلی ناکہ بندی ختم کرنے میں مدد دے گا۔

یہ ناکہ بندی پانچ برس پہلے شروع ہوئی تھی جب حماس نے غزہ پر کنٹرول حاصل کر لیا تھا اور اس کی وجہ سے علاقے میں زندگی کے حالات پر بہت برا اثر پڑا ہے۔

حماس کو امید ہے کہ نئی مصری حکومت ’رفا کراسنگ‘کو کھول دے گی اور زیادہ قانونی تجارت کی اجازت دے دے گی۔

فتح تحریک جو مغربی کنارے اور فلسطینی اتھارٹی کو کنٹرول کرتی ہے، مصر کے انتخاب کو کسی قدر مختلف انداز سے دیکھتی ہے۔ فتح اور فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کے ساتھ مصر کے سابق صدر حسنی مبارک کے تعلقات اچھے تھے لیکن مبارک کی حکومت حماس کو شک و شبہے کی نظر سے دیکھتی تھی۔

غزہ میں الفتح کے ایک لیڈر دائب الا لحو کہتے ہیں کہ انہیں امید ہے کہ مصر کی نئی قیادت حماس پر زور دے گی کہ وہ اعتدال پسند پالیسیاں اختیار کرے، اسرائیل کے بارے میں اپنا موقف نرم کرے اور فتح کے ساتھ تصفیے کے سمجھوتے پر عمل در آمد کرے۔

غزہ میں ’پاپولر فرنٹ فار دی لبریشن آف فسلطین‘ کے لیڈر خائید گوحل کا خیال ہے کہ اخوان المسلمین کی قیادت میں بننے والی حکومت حقائق کو سامنے رکھے گی اور پہلے مصر کی معیشت کو بحال کرنے پر توجہ دے گی جو گذشتہ 17 مہینوں کے سیاسی ہنگاموں کے نتیجے میں تباہ ہو گئی ہے۔

حماس کے ایک سینیئر لیڈر محمود ظاہر نے مغربی کنارے کے ایک ریڈیو اسٹیشن پر کہا کہ ان کے خیال میں اسلام پسندوں کے عروج سے، ایسے حالات پیدا ہوجائیں گے کہ مصر مختلف فلسطینی گروپوں کی جانب زیادہ متوازن موقف اختیار کرے گا۔

تجزیہ کار عبد الہادی کہتے ہیں کہ مصری سیاست خلفشار کا شکار ہے۔ ہم ایک نئے دور میں داخل ہو رہے ہیں جس میں غیر یقینی کا دور دورہ ہوگا۔ مثلاً یہ کہ اسلام کی سیاسی قوت اور عام معاشرے کے درمیان کس قسم کا تعلق ہو گا؟ ملک اور آئین کے دفاع میں اور مختلف سیاسی گروپوں کے درمیان توازن قائم رکھنے میں مصر کی فوج کا رول کیا ہوگا؟ اور آخری بات یہ کہ سیکورٹی اور معیشت کے روز افزوں مسائل کو کیسے حل کیا جائے گا؟

تجزیہ کار کہتے ہیں کہ مصر میں حالات کو معمول پر آنے میں وقت لگے گا۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ مصر اسرائیل میں اور فلسطینی علاقوں میں مختلف گروپوں کے ساتھ اپنے تعلقات کی اہمیت کو سمجھتا ہے۔ اس لیے قاہرہ میں جو بھی قیادت ابھر کر سامنے آئے گی، امکان یہی ہے کہ وہ ان تمام گروپوں کے ساتھ اپنے رابطے برقرار رکھنا چاہے گی۔

XS
SM
MD
LG