رسائی کے لنکس

مصر: پہلے انتخابی مرحلے کے بعد تلخ بحث کا آغاز


صدارتی امیدواران محمد مرسی اور احمد شفیق
صدارتی امیدواران محمد مرسی اور احمد شفیق

مصر میں انقلاب کے بعد پہلے صدارتی انتخاب کا پہلا راؤنڈ مکمل ہو چکا ہے اور اس کے بعد بہت سے ووٹروں کے درمیان آخری دو امیدواروں کی خوبیوں اور نقائص کے بارے میں بڑی تلخ بحث چھڑ گئی ہے ۔

گذشتہ سال تحریر اسکوائر میں لوگوں کا جوش و خروش دیدنی تھا۔ انھوں نے اپنے صدر کا تختہ الٹ دیا تھا جو 30 برس سے ان پر راج کر رہا تھا۔ مصر میں صدارتی انتخاب کا پہلا راؤنڈ شروع ہوا تو لوگوں نے انقلاب سے جو امیدیں وابستہ کی تھیں وہ برقرار تھیں۔ تیرہ امیدوار میدان میں آ گئے تھے، اور بیشتر ووٹروں کو زندگی میں پہلی بار خود کوئی فیصلہ کرنے کا موقع ملا تھا۔

لیکن اس کوشش کا جو نتیجہ نکلا ہے، وہ یہ ہے کہ آخری مقابلہ اسلام پسند امیدوار محمد مرسی، اور پرانے نظام کے نمائندہ امیدوار احمد شفیق کے درمیان ہوگا۔ بہت سے لوگوں کے لیے یہ ایک کڑوی گولی ہے جو انہیں نگلنی پڑے گی۔

مصریوں کی اکثریت نے ان میں سے کسی بھی امیدوار کو ووٹ نہیں دیا تھا ۔ اب ووٹنگ کے دوسرے راؤنڈ میں، بہت سے لوگوں کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ان دونوں میں وہ کسے کم نا پسند کرتے ہیں۔

سیاست اور عمرانیات کے ماہر سعید صادق پرانی حکومت کے پرستار نہیں ہیں ، بلکہ وہ اسے فوجی فسطائیت کا نام دیتے ہیں۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ ہمارے سامنے جو متبادل راستے ہیں، ان میں سے ایک راستہ پرانے نظام سے بھی بد تر ہے ۔

’’سیاست کا مطلب یہ ہے کہ مختلف نقطۂ نظر ، اور مختلف آرا کو جگہ دی جائے۔ جب آپ مذہب کو استعمال کرتے ہیں تو اپ قطعیت کی زبان میں بات کرنے لگتے ہیں، یعنی ان کی جو رائے ہے، وہ حرفِ آخر ہے۔‘‘

صادق بتاتے ہیں دوسرے ملکوں میں مذہب کے ساتھ تجربات کا کیا نتیجہ نکلا ہے۔ وہ کہتے ہیں’’کیا ہم ایرانی انقلاب کو دہرائیں گے اور کیا وہی کچھ کریں گے جو ایران میں سیکولر خیالات کے لوگوں اور لبرل عناصر نے کیا؟ یعنی شاہ سے نفرت میں، انھوں نے اس سے بھی زیادہ خراب سیاسی گروپ کے ساتھ اشتراک کیا جس نے آخر میں انہیں تہ تیغ کر ڈالا۔‘‘

کئی عشروں سے اخوان المسلمین تشدد کو خیر باد کہنے کا اعلان کرتی رہی ہے ۔ لیکن ایسے مصریوں کی نظر میں بھی جو اس گروپ کو فوج کے مقابلے میں نا پسندیدہ سمجھتے ہیں، اس کا اعتدال پسندی کا موجودہ وعدہ ، کوئی زیادہ قابلِ اعتبار نہیں ہے۔
رانیہ المالکی کالم نویس ہیں اور انقلاب کی حامی ہیں۔ وہ کہتی ہیں’’اخوان المسلمین کی تنظیم آج کچھ کہے گی اور کل اپنا ارادہ بدل دے گی۔ اور صدارت کے لیے اپنا امیدوار میدا ن میں لانے کے بارے میں انھوں نے یہی کچھ کیا ہے۔‘‘

ان تحفظات کے باوجود المالکی کہتی ہیں کہ کم از کم یہ امید تو ہے کہ اخوان نے شہری آزادیوں کے بارے میں کھل کر جس عزم کا اظہار کیا ہے، وہ پرانے حکمرانوں کے ظلم و ستم سے بہتر ہے جس کے بارے میں سب جانتے ہیں۔’’ہمارے سامنے جو دو راستے ہیں وہ دونوں ہی خراب ہیں، لیکن کون جانے کہ دوسرے راستے میں کوئی معجزہ واقع ہو جائے ۔ میں اس دوسرے راستے کو اختیار کرنے کو ترجیح دوں گی بجائے اس کے کہ ہم پھر وہیں واپس چلے جائیں جہاں ہم 24 جنوری 2011 کو تھے۔‘‘

ماحول میں جو مایوسی پائی جاتی ہے، اس میں مزید اضافہ اس امکان سے ہوتا ہے کہ کہیں دونوں ہی راستے خراب ثا بت نہ ہوں۔ صادق کہتے ہیں’’مجھے جس چیز سے سب سے زیادہ خطرہ محسوس ہوتا ہے وہ فوجی فسطائیت اور مذہبی فسطائیت کے درمیان گٹھ جوڑ ہے، اور یہ سلسلہ انقلاب کی ابتدا ہی سے شروع ہو چکا ہے ۔‘‘

اگرچہ سب لوگ اس قسم کی قنوطیت میں شریک نہیں ہیں، لیکن بہت سے لوگوں کے جذبات ایسے ہی ہیں، صرف مصر میں نہیں بلکہ پورے علاقے میں، جہاں عرب موسمِ بہار کی امیدیں سیاسی حقیقتوں کے مطابق ڈھالنی پڑ رہی ہیں۔

XS
SM
MD
LG