جہاں مصر میں بڑےپیمانے پر حکومت مخالف مظاہرے جاری ہیں،وہاں کئی اہم امریکی شہروں میں بھی صدر حسنی مبارک کے اقتدار چھوڑنے کے لیے مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے جو گذشتہ تین عشروں سے اپنے عہدے پر موجود ہیں۔
ہفتے کے روز واشنگٹن میں بھی کئی درجن افراد نے مظاہرہ کرتے ہوئے مشرقِ وسطیٰ میں امریکی پالیسیوں میں تبدیلی کا مطالبہ کیا ۔
‘وائس آف امریکہ’ کے نِکو کولمبینٹ نے خبر دی ہے کہ شدید سردی اور بارش کے موسم کے باوجود، مصری نژاد امریکی اور امریکی شہری احتجاج کے لیے مصری سفارتخانے کے باہرجمع ہوئے۔ اُن میں سے متعدد افراد شمالی امریکی ریاست مشی گن سے بسوں کے ذریعے واشنگٹن پہنچے تھے۔
مظاہرے میں شریک کے سی کہرفان کا کہنا تھا آمرانہ حکومت کے خلاف مصر میں جاری عوامی تحریک کا ساتھ دینا ضروری ہے۔
اُن کے بقول، جب کسی ملک کے حالات عوام کو احتجاج پر مجبور کردیں تو ان کاساتھ دینا ضروری ہوجاتا ہے۔ کیونکہ اِس سے حکومتی مظالم کا سامنا کرنے والی قوموں کو حوصلہ ملتا ہےاُنھوں نے کہا کہ ‘ہم انصاف چاہتے ہیں۔ ہم عدل چاہتے ہیں۔’
شامی نژاد ثمر سعد ین، کہرفان کے ساتھ کھڑے تھے۔وہ کہنے لگے کہ امریکیوں کو ایک بڑی مسلم اکثریت کے حامل ملک میں ایک مقبول عوامی بغاوت کے ابھرنے پر خوف زدہ نہیں ہونا چاہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں مذہب ، رنگ اور نسل سے بالاتر ہوکر صرف انصاف کا ساتھ دینے کے لیے یہاں کھڑا ہوں۔ ایک انسان کے لیے یہی کافی ہے ۔ انسان کی عزت کی جانی چاہیے۔
نعرے لگانے والوں میں طلعت پاشا بھی شامل تھے۔ اُنھوں نے کہا کہ سماجی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی پاداش میں اُنھیں اپنے آبائی ملک میں قید وبند کی صعوبتیں جھیلنا پڑیں تھیں ، جس کے بعد وہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کی خاطر مصر سے امریکہ آگئے۔
پاشا کا کہنا تھا کہ یہ وقت صرف صدر مبارک کی اقتدار سے علیحدگی کا ہی نہیں ہے بلکہ اب وقت آگیا ہے کہ امریکہ مشرقِ وسطیٰ میں ڈکٹیٹروں کی حمایت ترک کردے، جیسا کہ اس سے قبل اس نے عراق اور ایران میں کیا تھا۔
اُن کا کہناتھا کہ صدر مبارک پہلے شخص نہیں ہیں۔ اِن سے قبل عراق کے صدام حسین تھےاور ان سے قبل ، ایران کے شہنشاہ تھے۔ اس گنتی میں بہت نام آتے ہیں اور سب کو علم ہے کہ وہ سب آمر تھے۔
انہوں نے کہا کہ میں نے اپنی تعلیمی ڈگری کی تکمیل کے لیے میں نے جو مضمون چُنا تھا اُس تعلق اس چیز سے تھا کہ امریکی حکومت، اُس کے عوام نہیں، آمروں کی حمایت کرتی آ رہی ہے جو ایک غلط اقدام ہے۔
امریکہ ، مصر کو ، جسے وہ مشرق وسطیٰ میں استحکام میں مدد کے لیے اپنا قریبی اتحادی سمجھتا ہے، 1979ء سے اب تک اوسطاٍ ً سالانہ دو ارب ڈالر کی امداد دے رہاہے۔