رسائی کے لنکس

ایبولا: طبی عملے کی بھرتی کے لیے 10 کروڑ ڈالر کی امداد


عالمی بینک کے سربراہ نے اِس توقع کا اظہار کیا ہے کہ اس اضافی امدادی رقم کے میسر آنے سے، جو مغربی افریقہ کو دی جانے والی 40 کروڑ کی رقوم کے علاوہ ہے، ’صحت کی نگہداشت کے اضافی کارکنوں کو کام سے وابستہ کرنے میں مدد ملےگی‘

مغربی افریقہ میں ایبولا کے مریضوں کے علاج کے لیے درکار صحت کی نگہداشت کے غیر ملکی کارکنوں کی بھرتی میں مدد دینے کی غرض سے، عالمی بینک نے 10 کروڑ ڈالر دینے کا اعلان کیا ہے۔

اس بات کا اعلان جمعرات کے روز عالمی بینک کے صدر جِم ینگ کِم نے کیا۔

لائبیریا، سیئرا لیون اور گِنی کے تین ملک جہاں ایبولا کی وبا پھیلی ہوئی ہے، اِس وقت مرض سے نمٹنے کی تگ و دو کر رہے ہیں۔

ایک بیان میں، کِم نے کہا کہ عالمی بینک کو توقع ہے کہ اس اضافی امدادی رقم کے میسر آنے سے، جو مغربی افریقہ کو دی جانے والی 40 کروڑ کی رقوم کے علاوہ ہے، ’صحت کی نگہداشت کے اضافی کارکنوں کو کام سے وابستہ کرنے میں مدد ملےگی‘۔

دریں اثنا، اقوام متحدہ میں امریکی سفیر، سمنتھا پاور نے یورپی یونین کے رہنماؤں کے ایک گروپ کو بتایا کہ ضرورت اِس بات کی ہے کہ دنیا بھر کے ممالک اس کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں، جسے اُنھوں نے ’صحت عامہ کو درپیش سب سے بڑا بحران‘ قرار دیا۔

اُنھوں نے کہا کہ امریکہ اور چند دیگر ملک اس بیماری سے نبردآزما ہونے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ تاہم، ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کی روک تھام میں ہم سب اپنا اپنا حصہ ڈالیں۔

اُنھوں نے یہ بات برسلز میں کہی۔ گذشتہ ہفتے اُنھوں نے مغربی افریقہ دورہ کیا، جہاں ایبولا کی وبا کے نتیجے میں تقریباً 5000افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ تقریبا 14000 افراد جنھیں ایبولا لگنے کی یا تو تصدیق ہوچکی ہے، یا پھر وہ اس بیماری کے ممکنہ مریض ہیں، جن تمام مشتبہ مریضوں کا تعلق اِنہی تینوں متاثرہ ملکوں سے ہے۔

شمالی کوریا میں ابھی تک ایبولا کے مرض کا کوئی تصدیق شدہ کیس نہیں ہے۔ لیکن، شمالی کوریا نے جمعرات کے دِن اعلان کیا کہ ملک آمد پر تمام غیر ملکیوں کو 21 دِنوں کے لیے قرنطینہ میں ڈالا جائے گا، جس کی وجہ اس مہلک وائرس کا خوف ہے کہ ایسا نہ ہو کہ یہ وائرس ملک کو اثرانداز کرے۔

امریکہ کی ایک نرس جس نے مغربی افریقہ میں ایبولا کے مریضوں کی دیکھ بھال کے فرائض انجام دیے تھے، وہ ملک کی شمال مشرقی ریاست، مئین میں حکام کے احکامات کے برخلاف 10 نومبر تک قرنطینہ میں گزارنے سے گریزاں ہے۔

کیسی ہِکاکس کا طبی معائنہ کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اُن میں وائرس کی علامات نہیں ہیں۔

اُن کا مؤقف ہے کہ قرنطینہ میں رکھا جانا اُن کے شہری حقوق کی خلاف وری ہے، کیونکہ ایسے عمل کی کوئی سائنسی توجیہ موجود نہیں۔

وہ اور اُن کا ’بوائے فرینڈ‘ علی الصبح سائیکل چلانے باہر نکلے۔ ریاست کے حکام کا کہنا ہے کہ وہ عدالتی حکم نامہ حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں، تاکہ نرس کو قرنطینہ میں رکھا جاسکے، جس معاملے پر احکامات واضح ہیں۔

XS
SM
MD
LG