ابھی سردیوں کا موسم چل رہا ہے لیکن درختوں اور پودوں پر نئی کونپلیں ظاہر ہونا شروع ہو گئی ہیں جو آب و ہوا میں تبدیلی کی جانب اشارہ کرتی ہیں۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ زمین کے شمالی نصف کرہ میں آب و ہوا کی تبدیلی کا عمل 1980 کے عشرے سے جاری ہے اور ہر دس سال میں موسم بہار کا آغاز چار سے پانچ روز تک پہلے ہو رہا ہے۔
موسم کی تبدیلیوں اور بہار کی معمول سے جلد آمد کی نشاندہی زمین کے گرد گردش کرنے والے ان 40 سیٹلائٹس سے حاصل شدہ ڈیٹا سے ہوتی ہے، جو موسم سے متعلق معلومات اکھٹی کرنے کی غرض سے زمین کے مدار میں بھیجے گئے تھے۔
اب سائنس دان یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ موسموں کے آغاز میں تبدیلی کا عمل ہماری زمین پر کس طرح اثر انداز ہو رہا ہے اور اس سے کرہ ارض پر موجود پانی اور کاربن گیسوں کی مقدار پر کیا اثر پڑ رہا ہے۔
حال ہی میں سائنسی جریدے نیچر کلائمیٹ چینج میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شمالی نصف کرے میں بہار شروع ہونے سے پہلے کونپلوں کا پھوٹنا زمین کی سطح کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی جانب اشارہ کرتا ہے۔
انسٹی ٹیوٹ آف اٹماسفیرک فزکس، لارنس برکلے نیشنل لیبارٹری اور ننجنگ یونیورسٹی آف انفارمیشن سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی اس مشترکہ تحقیق کے نتائج میں کہا گیا ہے کہ اس سلسلے کے متعدد مطالعاتی جائزوں سے یہ پتا چلا ہے کہ آب و ہوا کی تبدیلی کس انداز سے نباتات پر اثر ڈال رہی ہے۔
تحقیق کے مصنف ڈاکٹر شیان شو کہتے ہیں کہ نباتات میں ہونے والی تبدیلیوں کے آب و ہوا پر اثرات پر بہت کم ہی توجہ دی گئی ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ پودوں اور درختوں پر پتوں کا موسم شروع ہونے سے پہلے ان کے نکلنے سے ان آبی بخارات کے اخراجات میں تیزی آ جاتی ہے، جو پتوں سے خارج ہوتے ہیں۔ تحقیق کے مطابق بلندیوں پر پہنچ کر آبی بخارات کا رخ قطبی علاقوں کی طرف ہو جاتا ہے، جب بہت بڑی مقدار میں یہ وہاں پہنچ جاتے ہیں تو وہ شمالی قطب پر بادلوں اور برف کے معمول میں خرابیاں پیدا کر دیتے ہیں۔
ڈاکٹر شو کہتے ہیں کہ یہی وجہ ہے کہ شمالی قطبی علاقے میں خلاف معمول گرم علاقے پیدا ہو گئے ہیں۔
اگر ہم سرد خطوں کی طرف نظر ڈالیں تو ہمیں پتا چلے گا کہ زمین کا درجہ حرارت بڑھنے کے سبب سرد خطوں میں وقت سے پہلے پتے نکل رہے ہیں جن کے بخارات کینیڈا کے بحراوقیانوس کے علاقوں، سائیبریا کے مشرقی اور مغربی کناروں اور جنوب مغربی تبتی علاقوں میں برف کی تہوں میں کمی کا باعث بن رہے ہیں۔
ڈاکٹر شو کہتے ہیں کہ برف ہماری زمین کے لیے اس وجہ سے بھی ضروری ہے کہ وہ سورج سے آنے والی شعاعوں کو منعکس کر دیتی ہے۔ اگر برف کم ہو گی تو سورج کی تابکاری بھی کم منعکس ہو گی اور اس کا زیادہ حصہ زمین کی سطح میں جذب ہو کر اسے مزید گرم کر دے گا۔
تحقیق میں مزید بتایا گیا ہے کہ اگر زمین کا درجہ حرارت مسلسل اسی رفتار سے بڑھتا رہا تو موسم کی تبدیلی کا عمل مزید تیز ہو جائے گا اور موسم وقت سے زیادہ پہلے آنے لگیں گے۔