آب و ہوا کی تبدیلی کے اثرات اب پرندوں میں بھی ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ ایک تازہ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ انسانی سرگرمیوں کے باعث آب و ہوا میں آنے والی تبدیلیاں صرف موسموں کے انداز کو ہی متاثر نہیں کر رہیں بلکہ اس کی وجہ سے پرندوں کے سائز چھوٹے اور پر بڑے ہونے شروع ہو گئے ہیں۔
امریکہ کی یونیورسٹی آف مشی گن کے سائنس دانوں نے موسم کی تبدیلی کے ساتھ شمالی امریکہ میں آنے والے 52 اقسام کے 70 ہزار سے زیادہ پرندوں کا معائنہ کیا۔ ان مردہ پرندوں کو 1978 سے 2016 کے درمیان اکھٹا کیا گیا تھا۔
سائنس دانوں کو معلوم ہوا کہ 38 سال کے عرصے کے دوران امریکہ آنے والی پرندوں کی تمام 52 نسلوں کے حجم میں مسلسل کمی اور ان کے پروں کی لمبائی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
مشی گن یونیورسٹی کے ماحولیاتی شعبے کی پروفیسر اور اس تحقیق کی ایک سینئر رکن این ایربار کہتی ہیں کہ ہمیں یہ معلوم نہیں ہے کہ پرندوں کے سائز میں کمی کس حد تک آب و ہوا کی تبدیلی کا ردعمل ہے۔ ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ وہ کرہ ارض کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کا مقابلہ اپنا حجم گھٹا نے سے کر پائیں گے یا وہ پیچھے رہ جائیں گے۔
ایک ایسے وقت میں جب کہ بعض ممالک کی جانب سے گلوبل وارمنگ کا مقابلہ کرنے میں عدم تعاون کے باعث زمین کے درجہ حرارت میں اضافے کا تسلسل رکتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا، سائنس دان اب اس پہلو پر تحقیق کر رہے ہیں کہ اس کا جانوروں کی مختلف نسلوں کی عادات پر کیا اثرات پڑیں گے۔ آیا کہ وہ بدلتے موسموں کا مقابلہ کر پائیں گے یا برفانی ریچھ اور کئی دوسرے جانوروں کی طرح معدومی کے دہانے پر پہنچ جائیں گے۔
اس سے قبل پرندوں پر ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ آب و ہوا کی تبدیلی کی وجہ سے ہر سال شمالی امریکہ میں سردیاں گزارنے کے لیے آنے والے پرندوں کی تعداد میں لگ بھگ تین ارب کی کمی آ چکی ہے۔
مشی گن یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے جن 70 ہزار پرندوں پر تحقیق کی، یہ وہ پرندے تھے جو موسم بہار اور موسم خزاں کے اپنے سفر کے دوران شکاگو کی بلند عمارتوں سے ٹکرا کر ہلاک ہو گئے تھے۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ 38 سال کے عرصے میں تمام نسلوں کے پرندوں کے سائز میں اوسطاً ڈھائی فی صد کمی ہوئی جب کہ ان کے وزن میں کمی اس سے قدرے زیادہ تھی۔ دوسری جانب ان کے پروں کی لمبائی اوسطاً ایک اعشاریہ تین فی صد بڑھی۔
اس تحقیق کے مصنف برائن ویکس کہتے ہیں کہ ہمارے لیے حیران کن بات یہ ہے کہ یہ دونوں انداز ایک دوسرے کے متضاد ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک نظریہ یہ ہے کہ حجم اور وزن میں کمی سے پرندوں کے لیے طویل فاصلوں تک اڑان کرنا مشکل تھا جس کی وجہ سے فطرت کے ارتقائی اصول کے تک ان کے پر بڑے ہو گئے۔
نیویارک میں ماحولیات سے متعلق ایک تجربہ گاہ کورنل لیب کے سائنس دان ویسلی اووشاشکا کہتے ہیں کہ اس تحقیق کے نتائج سے یہ پتا چلتا ہے کہ پرندے زندہ رہنے کے لیے خود کو آب و ہوا کی تبدیلی کے مطابق ڈھال رہے ہیں اور اپنی عادات تبدیل کر رہے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر درجہ حرارت میں اضافہ مسلسل جاری رہتا ہے تو یہ خدشات موجود ہیں کہ وہ حد آ سکتی ہے جہاں پرندوں کی موجودہ نسلیں اس کا ساتھ نہ دے سکیں۔
تو کیا اس دنیا سے پرندے اسی طرح غائب ہو جائیں گے جس طرح آج ڈینوسار نظر نہیں آتے۔ اس سوال کا جواب فی الحال سائنس دانوں کے پاس نہیں ہے۔