رسائی کے لنکس

ٹرمپ کے پریس کانفرنس میں دعوے، کیا حقائق ان کے برعکس ہیں؟


سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ
سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ
  • 6 جنوری2021 کی تقریر کے بارے میں ڈونلڈ ٹرمپ کا دعویٰ " یہ اب تک کا سب سے بڑا ہجوم تھا جس سے میں نے خطاب کیا، سب سے بڑا ہجوم۔ مجھ سے بڑے ہجوم سے آج تک کسی نے بات نہیں کی۔"
  • ٹرمپ نے کہا 6 جنوری 2021 کو کیپیٹل پر چڑھائی کے ہنگامے میں کوئی ہلاکت نہیں ہوئی
  • 6 جنوری 2021 کو ہونے والے ہنگامے اور اس کے فوری بعد پانچ افراد ہلاک ہوئے، سابق صدر ٹرمپ۔
  • "نیویارک کے مقدمے مکمل طور پر محکمہ انصاف کے کنٹرول سے باہر ہیں۔" ٹرمپ کا دعویٰ۔
  • جو بائیڈن سے صدارت چھین لی گئی ۔ آئینی نقطہ نظر سے، آپ جس بھی نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں، انہوں نے ان سے صدارت چھین لی۔"،ٹرمپ

نائب صدر کاملا ہیرس کے ڈیمو کریٹس کی صدارتی امیدوار کے طور پر سامنے آنے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعرات کو پہلی مرتبہ پریس کانفرنس کی۔ انہوں نے کہا کہ وہ 10 ستمبر کو ان سے مباحثہ کریں گے اور مزید دو تاریخوں کے لیے بھی زور دیا۔

ریپبلکن صدارتی امیدوار، ٹرمپ نے ایک گھنٹے سے زیادہ گفتگو کی جس میں انہوں نے ملک کو درپیش متعدد مسائل کا ذکر کیا اور نامہ نگاروں کے سوالوں کے جواب بھی دئیے۔ انہوں نے بہت سے غلط اور گمراہ کن دعوے بھی کیے۔

ایسوسی ایٹڈ پریس نے ان میں سے کچھ کا تجزیہ کیا ہے۔

مجمع میں کتنے لوگ تھے؟

ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ " یہ آج تک کا سب سے بڑا ہجوم تھا جس سے میں نے خطاب کیا، سب سے بڑا ہجوم۔ مجھ سے بڑے ہجوم سے آج تک کسی نے بات نہیں کی۔ اگر آپ مارٹن لوتھر کنگ کو دیکھیں کہ جب انہوں نے تقریر کی ، ان کی عظیم تقریر، اور آپ ہماری تقریر کو دیکھیں، اسی مقام پر، سب کچھ ویسا ہی، اسی تعداد میں لوگ، برابر نہیں تو اس سے زیادہ لوگ۔ اور وہ کہتے ہیں کہ تب دس لاکھ لوگ تھے لیکن ہمارے 25,000 لوگ تھے۔

سابق صدر ڈونلڈ ترمپ 6جنوری 2021 کو ایک ریلی سے خطاب کر رہے ہیں۔ فوٹو رائٹرز
سابق صدر ڈونلڈ ترمپ 6جنوری 2021 کو ایک ریلی سے خطاب کر رہے ہیں۔ فوٹو رائٹرز

حقیقت کیا ہے؟

6جنوری 2021 کو ٹرمپ وائٹ ہاؤس کے سامنے اپنی تقریر کے وقت ہجوم کا موازنہ مارٹن لوتھر کنگ جونئیر کی اس مشہورِ زمانہ تقریر کے ہجوم سے کر رہے تھے جس میں 28اگست 1963 کو لنکن میموریل پر انہوں نے کہا تھا، "میرا ایک خواب ہے۔"

لیکن کنگ کی تقریر کے لیے اندازہ ہے کہ اس سے کہیں زیادہ لوگ جمع ہوئے۔

نیشنل پارک سروس کے مطابق اس روز کنگ کی تقریر سننے کے لیے جس کا عنوان تھا، "مارچ آن واشنگٹن فار جابز اینڈ فریڈم" یعنی ملازمتوں اور آزادی کے لیے واشنگٹن کی جانب مارچ کیجیے، اندازہً دو لاکھ 50 ہزار لوگ جمع ہوئے۔ ایسوسی ایٹڈ پریس نے 2021 میں خبر دی تھی کہ ٹرمپ کی تقریر کے لیے کم از کم 10 ہزار لوگ جمع ہوئے۔

مزید یہ کہ ٹرمپ اورکنگ نے ایک ہی مقام پر تقریریں نہیں کی تھیں۔کنگ نے لنکن میموریل کی سیڑھیوں سے خطاب کیا جو واشنگٹن میموریل کے مشرق کی جانب ہے جبکہ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس کے جنوب میں گھاس والے علاقے الیپس سے تقریر کی۔

دعویٰ: 6 جنوری کو کوئی ہلاکت نہیں ہوئی

حقائق: یہ غلط ہے۔ 6 جنوری 2021 کو ہونے والے ہنگامے اور اس کے فوری بعد پانچ افراد ہلاک ہوئے۔ کانگریس کی طرف سے ڈیموکریٹ جو بائیڈن کی 2020 کے انتخابات میں کامیابی کی توثیق کرنے کی کوششوں کے درمیان اس دن ٹرمپ کے حامی مظاہرین نے امریکی کیپیٹل میں توڑ پھوڑ کی۔

مرنے والوں میں ایشلی بیبٹ بھی تھیں، ٹرمپ کی حامی خاتون جنہیں پولیس نے گولی مار کر ہلاک کر دیا، اور برائن سکنک، ایک پولیس افسر، جو ہجوم سے لڑنے کے ایک دن بعد ہلاک ہو گیا۔ فسادات کا جواب دینے والے چار مزید افسروں نے اگلے ہفتوں اور مہینوں میں خود اپنی جان لے لی۔

واشنگٹن میں 6جنوری 2021 کے ہنگامے کا منظر
واشنگٹن میں 6جنوری 2021 کے ہنگامے کا منظر

سان ڈیاگو سے تعلق رکھنے والی 35 سالہ ایئر فورس کی سابق اہلکار بیبٹ، پرتشدد ہنگامے کے دوران کیپیٹل کے دروازے کے ٹوٹے ہوئے حصے سے گزر رہی تھیں کہ ایک پولیس افسر نے انہیں گولی مار کر ہلاک کر دیا ۔ ٹرمپ نے اکثر بیبٹ کی موت کا حوالہ دیتے ہوئے ان لوگوں کے ساتھ سلوک پر افسوس کا اظہار کیا جنہوں نے اس دن وائٹ ہاؤس کے باہر ایک ریلی میں شرکت کی اور پھر کیپیٹل تک مارچ کیا، جن میں سے بہت سوں کی پولیس سے جھڑپ ہوئی۔

دعویٰ: بائیڈن سے صدارت چھینی گئی

ٹرمپ نے کہا کہ" جو بائیڈن سے صدارت چھین لی گئی ۔ میں بائیڈن کا مداح نہیں ہوں، لیکن میں آپ کو بتاتا ہوں، آئینی نقطہ نظر سے، آپ جس بھی نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں، انہوں نے ان سے صدارت چھین لی۔"

حقائق: آئین میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے جو ڈیموکریٹک پارٹی کو نائب صدر کاملا ہیرس کو اپنا امیدوار بنانے سے روکتی ہو۔ اس عمل کا تعین ڈیموکریٹک نیشنل کمیٹی کرتی ہے۔

ہیریس نے پانچ دن کے آن لائن ووٹنگ کے عمل کے بعد پیر کو باضابطہ طور پر نامزدگی حاصل کی۔ 4,615 ووٹوں میں سے انہیں ووٹ ڈالنے والے تقریباً 99% مندوبین کے یعنی 4,563 ڈیلیگیٹ ووٹ ملے ۔ 18 ریاستوں میں کل 52 مندوبین نے "Present" کے لیے اپنا ووٹ ڈالا، جو بیلٹ پر واحد دوسرا آپشن ہے۔

صدر جو بائیڈن کے 21 جولائی کوانتخابی دوڑ سے باہر ہونے کے فیصلے کے بعد پارٹی کی ڈیڈ لائن کے مطابق کوئی دوسرا امیدوار اہل نہ ہونے کے بعد نائب صدر ہیرس ووٹ حاصل کرنے کی اہل واحد امیدوار تھیں۔

دعویٰ: میں صدر ہوتا تو معیشت اچھی ہوتی

سابق صدر ٹرمپ نے کہا کہ اگر بائیڈن کے بجائے وہ صدر ہوتے تو حالات مختلف ہوتے،" آپ کو افراطِ زر کا سامنا نہ ہوتا، کوئی افراطِ زر نہ ہوتا کیونکہ افراطِ زر ان کے خراب توانائی کے مسائل کی وجہ سے ہوا۔ اب وہ ٹرمپ کے اقدام پر واپس چلے گئے ہیں کیونکہ انہیں ووٹوں کی ضرورت ہے۔ انہیں واپس جانا پڑا کیونکہ پٹرول 7، 8، 9 ڈالر فی بیرل تک جا رہا تھا۔"

حقائق: اگر ٹرمپ 2020 میں دوبارہ منتخب ہو جاتے تو کچھ افراطِ زر ضرور ہوتا کیونکہ افراطِزرکا سبب بننے والے بہت سے عوامل صدر کے کنٹرول سے باہر تھے۔ 2021 میں قیمتوں میں اس وقت اضافہ ہوا جب گھروں تک محدود امریکیوں نے ورزش کی بائیک اور ہوم آفس کے فرنیچر جیسے سامان پر اپنے اخراجات میں اضافہ کیا، سپلائی چین میں زبردست خلل پڑا۔ مثال کے طور پر، امریکی آٹو کمپنیاں کافی سیمی کنڈکٹرز حاصل نہیں کر سکیں اور انہیں پیداوار میں تیزی سے کمی کرنا پڑی، جس کی وجہ سے نئی اور استعمال شدہ کاروں کی قیمتیں بلند ہو گئیں۔ مارچ 2022 میں یوکرین پر روس کے حملے نے بھی گیس اور خوراک کی قیمتوں میں دنیا بھر میں اضافہ کر دیا، کیونکہ یوکرین کی گندم کی برآمدات میں خلل پڑا تھا اور بہت سے ملکوں نے روسی تیل اور گیس کا بائیکاٹ کیا تھا۔

بائیڈن کے تحت اب بھی، امریکی تیل کی پیداوار اس سال کے شروع میں دنیا بھر میں ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی۔

بہت سے ماہرینِ اقتصادیات کا، جن میں کچھ ڈیموکریٹس بھی شامل ہیں، کہنا ہے کہ مارچ 2021 میں بائیڈن کے 1.9 ٹریلین ڈالر کے مالی امدادی پیکج سے زیادہ تر امریکیوں کو 1,400 ڈالر کا امدادی چیک ملا، جس نے مانگ کو بڑھا دیا اور افراطِ زر میں اضافہ ہوا لیکن یہ خود افراط زر کا سبب نہیں بنا۔ ٹرمپ نے دسمبر 2020 میں 600 ڈالر کے اس پیکیج کے بجائے جس پر انہوں نے دسمبر 2020 میں دستخط کیے تھے اور جو قانون بن گیا تھا، دو ہزار ڈالر کے امدادی چیکس کی حمایت کی۔

بائیڈن سے مختلف پالیسیاں رکھنے والے ممالک میں قیمتیں اب بھی بڑھی ہیں، جیسے کہ فرانس، جرمنی اور برطانیہ، اگرچہ ایسا زیادہ تر روس کے حملے سے توانائی کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ کی وجہ سے ہوا ہے۔

تارکینِ وطن کی تعداد

دعویٰ : ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ بائیڈن ہیرس انتظامیہ کے دوران 20 ملین یعنی دو کروڑ لوگ سرحد پر آئے-" 20 ملین لوگ - اور یہ اس سے بہت زیادہ ہو سکتا ہے۔ لیکن حقیقتاً کوئی نہیں جانتا۔"

حقائق: ٹرمپ کے 20 ملین اعداد و شمار کا کوئی ثبوت نہیں اور انہوں نے ذریعہ نہیں بتایا۔

امریکی انتخابات
غیر قانونی تارکینِ وطن
انتخابی مہم کا بڑا موضوع
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:29 0:00

یو ایس کسٹمز اینڈ بارڈر پروٹیکشن نے جنوری 2021 سے جون 2024 تک میکسیکو سے غیر قانونی سرحد پار کرنے پر 8.2 ملین گرفتاریوں کی اطلاع دی ہے۔ یہ گرفتاریاں ہیں، لوگ نہیں۔ وباکے دور میں پناہ کی پابندیوں کے تحت، بہت سے لوگوں نے ایک سے زیادہ بار سرحد عبور کی جب تک کہ وہ کامیاب نہ ہو گئے کیونکہ میکسیکو واپس جانے پر تب کوئی قانونی کارروائی نہیں تھی۔۔ اس لیے لوگوں کی تعداد گرفتاریوں کی تعداد سے کم ہے۔

اس کے علاوہ، CBP کا کہنا ہے کہ اس نے جنوری 2021 سے جون 2024 تک میکسیکو کے ساتھ سرکاری لینڈ کراسنگ پر گیارہ لاکھ مرتبہ تارکین وطن کو روکا، زیادہ تر آن لائن اپائنٹمنٹ سسٹم کے تحتCBP One نامی پناہ کے لیے۔

امریکی حکام نے بھی کیوبا، ہیٹی، نکاراگوا اور وینزویلا کے تقریباً 5 لاکھ تارکین وطن کو جن کے مالی کفیل موجود تھے اور وہ ہوائی اڈے پر پہنچے، انہیں صدارتی اختیار کے تحت داخلے کی اجازت دی ۔

جو بتائے گئے وہ تقریباً 87 لاکھ اینکاؤنٹرز ہیں۔ ایک بار پھر لوگوں کی تعداد کم ہے کیونکہ کچھ لوگوں کا آمنا سامنا متعدد بار ہوا۔

ایسے لوگوں کی ایک نامعلوم تعداد ہے جو گرفتاری سے بچ گئے، جنہیں سرحدی گشت کی زبان میں "گاٹ اویز"Got Aways کہا جاتا ہے۔ سرحدی بارڈر پیٹرول کے پاس ان کی تعداد ہوتی ہے مگر وہ اسے جاری نہیں کرتے۔۔

دعویٰ : ٹرمپ نے کہا کہ نائب صدر 100% بارڈر زار یعنی سرحد کی بادشاہ تھیں لیکن اچانک وہ گزشتہ کئی ہفتوں سے بارڈر زار نہیں رہیں۔

حقائق :کے مطابق ہیرس کو وسطی امریکہ میں ترکِ وطن کی بنیادی وجوہات تلاش کرنے کا فریضہ سونپا گیا تھا۔ ترکِ وطن کا یہ عمل امریکہ تک غیرقانونی سرحدی کراسنگز تک پھیلا ہوا ہے۔ تاہم انہیں سرحد کے فرائض نہیں دیے گئے تھے۔

نیو یارک کے کیسز

ٹرمپ کا دعویٰ: "نیویارک کے مقدمے مکمل طور پر محکمہ انصاف کے کنٹرول سے باہر ہیں۔"

حقائق: ٹرمپ نیویارک میں اپنے خلاف لائے گئے دو مقدمات کا حوالہ دے رہے تھے - ایک سول اور دوسرا فوجداری

ان میں سے کسی کا امریکی محکمہ انصاف سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

سول کیس نیویارک کی اٹارنی جنرل لیٹیشیا جیمز کی طرف سے شروع کیا گیا تھا۔ اس معاملے میں، ٹرمپ کو فروری میں حکم دیا گیا تھا کہ وہ برسوں تک اپنی دولت کے بارے میں جھوٹ بولنے پر 454 ملین ڈالر کا جرمانہ ادا کریں کیونکہ انہوں نے رئیل اسٹیٹ کی ایمپائر بنائی جس نے انہیں سلیبریٹی بنا دیا اور پھر وہ وائٹ ہاؤس تک پہنچ گئے۔

مین ہیٹن کے ڈسٹرکٹ اٹارنی ایلون بریگ، ایک ریاستی سطح کے پراسیکیوٹر ہیں انہوں نے فوجداری مقدمہ قائم کیا۔ مئی میں، ایک جیوری نے ٹرمپ کو 2016 کے انتخابات پر غیر قانونی طور پر اثر انداز ہونے کی اسکیم میں 34 سنگین جرائم پر مجرم قرار دیا جس میں ایک پورن فلمی اداکارہ کو جس نے کہا تھا کہ ان دونوں کا ایک رات کا جنسی تعلق تھا، خاموش رکھنے کے لیے رقم کی ادائیگی کرنا بھی شامل تھا۔

فورم

XS
SM
MD
LG