|
واشنگٹن _ امریکہ کی نائب صدر اور نومبر کے الیکشن میں ڈیموکریٹک امیدوار کاملا ہیرس اور ان کے ری پلکن حریف ڈونلڈ ٹرمپ نشریاتی ادارے 'اے بی سے' کی میزبانی میں 10 ستمبر کو صدارتی مباحثے میں شرکت کے لیے راضی ہو گئے ہیں۔
ایک اور نشریاتی ادارہ این بی سی دونوں امیدواروں کی مہمات سے دوسرے ممکنہ مباحثے کو منعقد کرنے پر پات کر رہا ہے۔
ٹرمپ نے ایک طویل پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ نائب صدارت کے ری پبلکن امیدوار جے ڈی وینس اور ڈیموکریٹک امیدوار ٹم والز کے درمیان 'سی بی ایس' نیوز مباحثے کی میزبانی کرے گا۔
ٹرمپ نے فوکس نیوز چینل پر چار ستمبر کو ہونے والے مباحثے کی دعوت بھی قبول کر لی ہے۔ اس چینل کے کئی روایت پسند تبصرہ نگار ٹرمپ کے الیکشن کی حمایت کرتے ہیں۔ تاہم ہیرس نے اس مباحثے میں شرکت پر رضامندی ظاہر نہیں کی ہے۔
ہیرس اور ٹرمپ کے درمیان اے بی سی نیوز کی میزبانی میں ہونے والا مباحثہ پانچ نومبر کی انتخابی مہم کا متوقع طور پر ایک اہم ترین لمحہ ہوگا۔
کئی لاکھ لوگ اس مباحثے کو دیکھیں گے۔ ان میں سے کچھ نے اس وقت تک ووٹ کے لیے اپنے من پسند امیدوار کا فیصلہ نہیں کیا ہوگا۔
عوامی جائزے ظاہر کرتے ہیں اس وقت دونوں صدارتی امیدواروں میں کانٹے کا مقابلہ ہے اور ہیرس شاید برتری حاصل کر رہی ہیں۔
بائیڈن ٹرمپ مباحثہ
ٹرمپ اور صدر جو بائیڈن کے درمیان جون میں ہونے والے مباحثے نے نئے صدر کے چناؤ کے سلسلے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ نئے امریکی صدر کی وائٹ ہاؤس کی چار سالہ مدت اگلے سال جنوری میں شروع ہو گی۔
اکیاسی سالہ بائیڈن 27 جون کو ہونے والے مباحثے میں بری طرح لڑکھڑاتے دکھائی دیے تھے۔ نہ تو وہ ٹرمپ کے خلاف بھرپور تنقید کر سکے اور نہ ہی اپنے ساڑھے تین سالہ دور کا دفاع کرسکے۔
عوامی جائزوں میں تنزلی اور ڈیموکریٹک ساتھیوں کی طرف سے دباؤ کے پیش نظر بائیڈن نے 21 جولائی کو صدارتی دور سے دست بردار ہونے کا اعلان کیا اور انہوں نے فوراً ہی ہیرس کی صدارتی امیدوار کے طور توثیق کر دی تھی۔
اگر 59 سالہ ہیرس الیکشن میں منتخب ہو جاتی ہیں تو وہ امریکہ کی پہلی خاتون چیف ایگزیکیٹو ہوں گی، سابق صدر براک اوباما کے بعد دوسری سیاہ فام صدر، اور اس عہدے پر فائز ہونے والی پہلی بھارتی نژاد شخصیت ہوں گی۔
جب بائیڈن نے اپنی انتخابی مہم ختم کی تو وہ ٹرمپ کے مقابلے میں عوامی جائزوں میں پانچ سے چھ فی صد پوائنٹس سے پیچھے تھے۔ ڈیموکریٹس نے جلد ہی ہیرس کی حمایت کی تھی۔
ملک میں ہونے والے متعدد جائزوں میں اب وہ ٹرمپ سے ایک فی صد پوائنٹ سے آگے ہیں۔ تاہم سخت مقابلے کی امریکی ریاستوں میں ہیرس اب بھی ٹرمپ سے پیچھے ہیں۔ یہ ریاستیں ممکنہ طور پر الیکشن کے نتائج کا تعین کریں گی۔
ریاست فلوریڈا میں ٹرمپ کی رہائش گاہ پر جمعرات کو ہونے والی ایک گھنٹہ اور پانچ منٹ طویل دورانیے کی پریس کانفرنس میں ٹرمپ نے 37 سوالوں کے جواب دیے۔
اس میڈیا سیشن کا مقصد ٹرمپ کی مدِ مقابل ہیرس کو نیچا دکھانا تھا اور ان کی بائیڈن کی مہم کے خاتمے کے اٹھارہ دنوں میں صحافیوں کے ساتھ باقاعدہ سوال وجواب نہ کرنے کو نمایاں کرنا تھا۔
اٹھتر سالہ ٹرمپ نے بارہا ہیرس پر تنقید کی، ان کی "ہلکی دانش" پر حملے کیے، انہیں ایک بنیاد پرست بائیں بازو کے فرد کے طور بیان کیا جو کہ امریکہ کے قومی دھارے کے ووٹروں سے ناواقف ہیں۔ ٹرمپ نے بار بار ان کے پہلے نام کو کاملا کی بجائے "کوماہلا" کہہ کر پکارا۔
ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ وہ بمشکل انٹرویو دے سکتی ہیں، اور بمشکل ہی قابل ہیں۔ وہ اتنی ذہین نہیں ہیں کہ کوئی پریس کانفرنس کر سکیں۔
ٹرمپ نے ہیرس کو بائیڈن سے بدتر اور کم دانش مند بیان کیا۔ بعدازاں انہوں نے کہا کہ وہ ہیرس کی ذات کے بارے میں بات نہیں کر رہے بلکہ ان کی بری پالیسیوں کے متعلق بات کر رہے ہیں۔
متعدد غلط بیانیاں
پریس کانفرنس کے دوران ٹرمپ نے کئی بار غلط بیانی کی۔مثال کے طور پر انہوں نے دعویٰ کیا کہ ہیرس کی وسکانسن اور مشی گن ریاستوں میں جلسوں میں تقریباً 1500 لوگ آئے تھے۔ حقیقت میں ان مواقعوں پر لوگوں کی تعداد ہزاروں میں تھی۔
ایک اور جگہ انہوں نے غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے کہا کہ چھ جنوری کو جب ان کے تقریباً دوہزار حمایتیوں نے الیکشن میں ان کی بائیڈن کے ہاتھوں شکست کی توثیق کو روکنے کے لیے کانگریس کی جانب مارچ کیا تو کوئی بھی زخمی نہیں ہوا تھا۔
جب کہ اس روز ایک ہزار لوگوں کو حراست میں لیا گیا تھا جن میں بہت سوں نے امریکی حکومت کے اہم مرکز پر توڑ پھوڑ کی تھی اور کانگریس کے دفاتر پر دھاوا بولا تھا۔ پولیس نے ٹرمپ کے ایک حامی کو گولی مارکر ہلاک کر دیا تھا۔
ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ ملک کی اکثریت میری حامی ہے جب کہ سال 2016 اور پھر چارسال قبل وہ پاپولر ووٹ حاصل نہ کرسکے تھے۔ اس وقت 43 فی صد امریکی ان کو موزوں سمجھتے ہیں۔
انتخابی مہموں میں ہیرس اور ٹرمپ ووٹروں کو ایک دوسرے کی خامیوں سے آگاہ کر رہے ہیں۔
ہیرس اپنی مہم کا کوئی بھی لمحہ ووٹروں کو یہ یاد کرائے بغیر ضائع نہیں کرتیں کہ وہ سب سے بڑی امریکی ریاست کیلی فورنیا کی سرکاری استغاثہ تھیں جن کا کام مجرموں کو جیل کی سزا دلانا تھا۔
ہیرس کو یہ کہنا پسند ہے کہ وہ ٹرمپ کی قسم کو لوگوں کو جانتی ہیں اور نوٹ کرتی ہیں کہ وہ عدالت میں مجرم ثابت ہونے والے شخص ہیں جنہیں کئی کاروباری فراڈ اور دوسروں کو بدنام کرنے کے مقدمات میں جرمانہ سنایا جاچکا ہے۔
جمعرات کو ٹرمپ کی ہیرس کو نشانہ بنانے کی باری تھی۔ نائب صدر کے امیدوار وینس نے ایک روز قبل ان پر ڈیموکریٹک امیدواری حاصل کرنے کے بعد سے کوئی پریس کانفرنس نہ کرنے پر اور کسی میڈیا کو انٹرویو نہ دینے پر تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
ہیرس نے اپنی انتخابی مہم کو کور کرنے والے رپورٹرز کے ساتھ مختصر بات کی ہے لیکن انہوں نے باقاعدہ سوال و جواب کا کوئی سیشن نہیں کیا۔
ہیرس کی ڈیموکریٹک مشعل بردار بن کے خبروں میں چھا جانے کے بعد ٹرمپ ووٹروں کی توجہ حاصل کرنے کے راستے تلاش کر رہے ہیں۔ اس ہفتے ہیرس اپنے ساتھ نائب صدر کے لیے والز کا اعلان کر کے پھر خبروں میں نمایاں رہیں۔
ڈیموکریٹس مہم کے لیے سٹرکوں پر ہیں، ٹرمپ گھر پر
ہیرس اور والز ان نصف درجن امریکی ریاستوں کے دورے پر ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ وائٹ ہاؤس کے حصول کی دوڑ میں فیصلہ کن کردار ادا کریں گی جب کہ ٹرمپ نے فنڈز اکٹھا کرنے کے لیے ریاست فلوریڈا میں ہی قیام کیا۔
دونوں مہمات نے سمندری طوفان اور سیلابی ریلوں کی وجہ سے جمعرات کو وسطی اٹلانٹک ریاست شمالی کیرولائنا میں جلسے منسوخ کر دیے۔
ہیرس اور والز نے بااثر 'یونائیٹڈ آٹو موبیل ورکرز یونین' کے صدر شان فین کے ہمراہ ریاست مشی گن میں ایک جلسے سے خطاب کیا۔ اس یونین نے گزشتہ ہفتے ہیرس کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔
ہیرس نے جلسے کے بعد نامہ نگاروں کے کچھ سوالوں کے جواب دیے۔ ایک موقع پر انہوں نے کہا وہ ایک میڈیا آؤٹ لیٹ کو انٹرویو دیں گی۔
انہوں نے کہا، "میں اس انٹرویو کو اس مہینے کے اختتام سے قبل شیڈول کرنا چاہوں گی۔"
جمعے کو دونوں مہمات تقریبات کے لیے مغربی امریکہ کا رخ کریں گی۔
فورم