پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے بدھ کو کھٹمنڈو میں’ سارک‘ کے سربراہ اجلاس سے خطاب میں کہا کہ وہ جنوبی ایشیا کو تنازعات سے پاک خطہ دیکھنا چاہتے ہیں۔
نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو جنوبی ایشیائی ممالک کی علاقائی تنظیم کے اٹھارویں سربراہ اجلاس سے خطاب میں وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ یہ تنازعات سے پاک ایسا خطہ ہو جہاں ایک دوسرے سے لڑائی کی بجائے، غربت، ناخواندگی، بیماری اور بے روزگاری کے خلاف مل کر لڑا جائے۔
اُنھوں نے کہا کہ سارک ممالک کو اپنی نوجوان آبادی پر سرمایہ کاری کرنی چاہیئے۔
سارک سربراہ اجلاس میں افغانستان، بنگلہ دیش، بھوٹان، بھارت، مالدیپ، نیپال، پاکستان اور سری لنکا کے سربراہان شرکت کر رہے ہیں۔
نواز شریف نے کہا کہ سارک تنظیم رکن ممالک کے درمیان ہم آہنگی میں کردار ادا کر سکتی ہے۔
وزیراعظم نواز شریف اور بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کی سارک سربراہ اجلاس کے موقع پر براہ راست دو طرفہ ملاقات طے نہیں ہے۔ تاہم یہ دونوں رہنما اجلاس میں شریک دیگر ممالک کے سربراہان سے ملاقاتیں کریں گے۔
پاکستان کے وزیراعظم نے کہا کہ وہ سارک تنظیم کو ایک اہم فورم سمجھتا ہے جو خطے میں امن، استحکام اور خوشحالی کی اُمید ہے۔
وزیراعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ اگر ہم اس خطے کو دیکھیں تو دنیا کے تقریباً ایک چوتھائی لوگ یہاں آباد ہیں۔ لیکن اُن کے بقول یہ خطہ غربت، بیماری اور ناخواندگی میں جکڑا ہوا ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات تناؤ کا شکار ہیں۔ تاہم پاکستانی وزیراعظم نے اپنے خطاب میں اس سلسلے میں براہ راست دوطرفہ تعلقات کے بارے میں کوئی تذکرہ نہیں کیا۔
بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے بھی اپنے خطاب میں پاکستان کا نام لیے بغیر کہا کہ یہ وقت کا تقاضا ہے کہ جنوبی ایشیا کے ممالک کے درمیان باہمی تعاون کو فروغ دیا جائے۔
’’پاس ہونے سے ساتھ ہونے کی طاقت کئی گنا زیادہ ہوتی ہے اور اس لیے سارک ممالک کے لیے وقت کا تقاضا ہے کہ ہم پاس پاس بھی ہیں، لیکن ساتھ ساتھ بھی ہوں۔‘‘
حالیہ مہینوں میں دونوں ملکوں کے درمیان متنازع علاقے کشمیر میں لائن آف کنٹرول اور سیالکوٹ ورکنگ باونڈری پر تواتر سے فائرنگ اور گولہ باری کا تبادلہ ہوتا رہا جس میں پہل کا الزام دونوں ملک ایک دوسرے پرعائد کرتے ہیں۔ ان واقعات میں دونوں جانب 20 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
رواں سال اگست میں بھارت نے پاکستان کے ساتھ خارجہ سیکرٹری سطح کے مذاکرات منسوخ کر دیئے تھے۔ حال ہی پاکستانی حکام کی طرف سے یہ بیانات سامنے آئے کہ اب مذاکرات کے لیے ماحول کو ساز گار بنانے میں پہلے بھارت کو کرنا ہو گی۔
بھارت کا الزام ہے کہ دہشت گرد ان کے خلاف پاکستان کی سرزمین استعمال کر رہے ہیں جب کہ پاکستان اسے مسترد کرتے ہوئے کہتا آیا ہے کہ وہ خود دہشت گردی کا شکار ہے اور شدت پسندی سے نمٹنے کے لیے سنجیدہ کوششیں کی جا رہی ہیں۔
دونوں ملکوں میں سیاستدان اور کاروباری حلقوں کا یہ ماننا ہے کہ خطے میں امن اور خوشحالی کے لیے پاکستان اور بھارت کے درمیان اچھے تعلقات ضروری ہیں۔
امریکہ بھی یہ کہہ چکا ہے کہ ان دونوں ملکوں کو اپنے مسائل بات چیت کے ذریعے مذاکرات کی میز پر حل کرنے چاہیں۔
رواں سال سارک اجلاس کا عنوان بھی ’امن اور خوشحالی کے لیے مربوط تعاون‘ منتخب کیا گیا۔ سربراہ اجلاس میں شریک رہنماؤں کا ماننا تھا کہ خطے کے ممالک کی ترقی ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے۔