جنوبی ایشیائی ممالک کی علاقائی تنظیم "سارک" کے سربراہ اجلاس میں شرکت کے لیے پاکستانی وزیراعظم منگل کو کھٹمنڈو پہنچے۔
نیپال روانگی سے قبل وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ پاکستان خطے میں امن و استحکام چاہتا ہے اور ایسا صرف امن اور اقتصادی تعاون کے ماحول ہی میں ممکن ہے۔
سارک سربراہ اجلاس بدھ کو کھٹمنڈو میں شروع ہو گا جس میں بھارت، پاکستان، افغانستان، بنگلہ دیش، بھوٹان، مالدیپ، سری لنکا اور نیپال کے سربراہان شرکت کریں گے۔
پاکستانی وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ و قومی سلامتی سرتاج عزیز نے کھٹمنڈو میں وزرائے خارجہ کے اجلاس میں شرکت کی۔ نیپال میں صحافیوں سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان بھارت وزرائے اعظم کے درمیان اس موقع پر کوئی ملاقات طے نہیں۔
لیکن ان کے بقول اگر بھارت کی طرف سے اس بارے میں پیشکش ہوئی تو پاکستان اس پر غور کر سکتا ہے۔
اُدھر منگل کو اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو میں پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ ان کا ملک بھارت کے ساتھ امن کا خواہاں ہے لیکن اس خواہش کو اس کی کمزوری نہیں سمجھا جانا چاہیئے۔
’’جب نواز شریف نے حکومت سنھبالی، تو انھوں نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ وہ ہندوستان کے ساتھ بہتر تعلقات چاہتے ہیں۔ ہم برصغیر میں امن چاہتے ہیں ہم برصغیر میں خوشحالی چاہتے ہیں۔۔۔۔ لیکن گزشتہ چند ماہ میں ہماری اس خواہش کو شاید غلط سمجھا گیا ہے اور جو اس وقت بارڈر پر سلسلہ چل رہا ہے وہ برصغیر میں امن کے لیے خوش آئند نہیں ہے۔‘‘
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت اپنے تنازعات کو مذاکرات کے ذریعے حل کر سکتے ہیں اور اس کے لیے بات چیت کا راستہ اختیار کیا جانا چاہیئے۔
’’ہم آج بھی امن چاہتے ہیں، لیکن امن عزت کے ساتھ وقار کے ساتھ چاہتے ہیں۔ اگر کوئی امن کی خواہش کو کمزوری سے تشبیہ دے تو یہ غلط فہمی ہو گی۔ میرا خیال ہے کہ جو بھی مسائل ہیں وہ ۔۔۔ مذاکرات کے ذریعے حل ہو سکتے ہیں اور ہمیں یہی راستہ اپنانا چاہیئے۔ ہم ہمسائے ہیں ایک زبان بولتے ہیں ایک ہمارا کلچر ہے اور اس (تناظر) میں ہماری دشمنی جو ہے وہ ماضی کا حصہ بننی چاہیئے۔‘‘
حالیہ مہینوں میں دونوں ملکوں کے درمیان متنازع علاقے کشمیر میں لائن آف کنٹرول اور سیالکوٹ ورکنگ باونڈری پر تواتر سے فائرنگ اور گولہ باری کا تبادلہ ہوتا رہا جس میں پہل کا الزام دونوں ملک ایک دوسرے پرعائد کرتے ہیں۔ ان واقعات میں دونوں جانب 20 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ رکن ممالک میں تیز رفتار ترقی اور خوشحالی کے لیے ضروری ہے کہ سارک ممالک میں رابطوں اور تجارت کو بڑھایا جائے۔
پاکستان اور بھارت خطے کی دو اہم ایٹمی قوتیں ہیں اور حالیہ مہینوں میں ان کے درمیان سرحد پر فائرنگ کے تبادلوں سے کشیدگی میں ایک بار پھر اضافہ ہوا ہے۔
امریکہ بھی یہ کہہ چکا ہے کہ ان دونوں ملکوں کو اپنے مسائل بات چیت کے ذریعے مذاکرات کی میز پر حل کرنے چاہیں۔
بھارت کا الزام ہے کہ دہشت گرد ان کے خلاف پاکستان کی سرزمین استعمال کر رہے ہیں جب کہ پاکستان اسے مسترد کرتے ہوئے کہتا آیا ہے کہ وہ خود دہشت گردی کا شکار ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے سنجیدہ کوششیں کر رہا ہے۔
وزیر دفاع خواجہ آصف کا بھی کہنا تھا کہ پاکستانی افواج دہشت گردی کے خلاف بلا امیتاز کارروائیاں کر رہی ہیں اور اس میں انھوں نے بڑی قربانیاں بھی دی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ خطے میں امن کے لیے افغانستان میں امن و استحکام اشد ضروری ہے اور ان کے بقول اس ضمن میں کسی بھی دوسرے ملک کو افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔
’’افغانستان میں امن کے لیے پاکستان کو بھرپور کردار ادا کرنا چاہیئے جس میں اس ملک کے اندر قطعی طور پر ہماری طرف سے کوئی مداخلت نہیں ہو گی اور نا ہو رہی ہے‘‘