رسائی کے لنکس

برطانیہ میں ڈائنوسارز ہائی وے کی دریافت


 برطانیہ میں دریافت ہونے والی ڈائنو سارز کی گزرگاہوں پر،جنہیں ڈائنو سارز ہائی وے کہا جارہا ہے، ماہرین ریسرچ کر رہے ہیں ،برمنگھم یونیورسٹی کا اے پی کو فراہم کیا گیا فوٹو یکم جنوری 2025
برطانیہ میں دریافت ہونے والی ڈائنو سارز کی گزرگاہوں پر،جنہیں ڈائنو سارز ہائی وے کہا جارہا ہے، ماہرین ریسرچ کر رہے ہیں ،برمنگھم یونیورسٹی کا اے پی کو فراہم کیا گیا فوٹو یکم جنوری 2025
  • برطانیہ میں چونے کی کانوں میں ڈائنو سارزکے پاؤں کے نشانات والی سینکڑوں گزرگاہیں دریافت ہوئی ہیں۔
  • ان نشانات کا تعلق 16 کروڑ 60 لاکھ سال پہلے کے زمانے سے ہے۔
  • ان پگڈنڈیوں کی تعداد 200 سے زیادہ ہے۔
  • حیرت کی بات یہ ہے کہ ایک دوسرے کو کاٹتی ہوئی یہ پگڈنڈیاں سبزی خور اور گوشت خورڈائنو سارز استعمال کرتے تھے، جس سے ان کے درمیان تعلق پر سوالات اٹھتے ہیں۔
  • سبزی خورڈائنو سارزکی لمبائی 60 فٹ جب کہ گوشت خور ڈائنوسارز کی لمبائی 30 فٹ تک تھی۔
  • ماہرین نے نئی دریافتوں کی 20 ہزار سے زیادہ ڈیجیٹل تصاویر بنائی ہیں اور ڈرونز کی مدد سے تھری ڈی ماڈل بھی تیار کیے ہیں۔
  • ماہرین کا کہنا ہے کہ نئی دریافتوں سےڈائنو سارز کے شب و روز اور نقل و حرکت کے بارے میں وسیع تر معلومات حاصل ہوں گی۔

برطانیہ کے جنوبی علاقے میں ایک کارکن کو چونے کے پتھر والے علاقے میں کھدائی کے دوران ڈائنو سارز کے قدموں کے نشان دکھائی دیے جو نرم مٹی پر ثبت ہو گئے تھے۔ اس علاقے میں لگ بھگ 200 ایسی پگڈنڈیاں تھیں جن پر یہ نشانات موجود تھے۔

قدیم حیاتیات کے ماہرین نے تحقیق کے بعد کہا ہے پاؤں کے نشانات والی اتنی زیادہ پگڈنڈیوں کی موجودگی یہ ظاہر کرتی ہے کہ یہ علاقہ ڈائنو سارز کی صرف گزرگاہ ہی نہیں بلکہ ان کا ہائی وے تھا۔

یہ نشانات تقریباً 16 کروڑ 60 لاکھ سال پرانے ہیں، جب دنیا میں ڈائنو سارز راج کرتے تھے۔

یہ غیر معمولی انکشاف اس وقت ہوا جب ایک سو سے زیادہ افراد پر مشتمل ایک ٹیم آکسفورڈ شائر کے علاقے ڈیورز فارم میں چونے کے پتھر کی کانوں والے علاقے میں کھدائی کر رہی تھی۔

آکسفورڈ یونیورسٹی اور برمنگھم یونیورسٹی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ جون میں کی جائے والی اس کھدائی سے قدیم حیاتیات سے متعلق تحقیق میں وسعت آئی ہے اور ڈائنو سارز کے وسطی دور کے بارے میں معلومات میں اضافہ ہوا ہے۔

گوشت خورڈائنو سارز میگالوسورس کے پنجے کا نشان۔ اس نسل کے ڈائینو سارز کی لمبائی 30 فٹ کے لگ بھگ تھی۔ 2 جنوری 2025
گوشت خورڈائنو سارز میگالوسورس کے پنجے کا نشان۔ اس نسل کے ڈائینو سارز کی لمبائی 30 فٹ کے لگ بھگ تھی۔ 2 جنوری 2025

برمنگھم یونیورسٹی میں قدیم حیاتیات کی ایک ماہر کرسٹی ایڈگر کہتی ہیں کہ پاؤں کے یہ نشانات ڈائنو سارز کی زندگیوں کے بارے میں ایک جادوئی کھڑکی کھول رہے ہیں جو ہمیں ان کی نقل و حرکت، میل ملاپ اور مرطوب علاقے میں ان کے ٹھکانوں کے بارے میں وسیع تر معلومات فراہم کرتی ہے۔

چونے کے پتھروں پر ثبت پاؤں کے نشانات والی چار پگڈنڈیوں کے ایک مجموعے کو ریسرچرز نےڈائنو سارز ہائی وے کا نام دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ہائی وے سارپاڈ، یا سیٹی سورس نسل کےڈائنو سارز کے زیر استعمال رہی تھی۔ ان دیوقامت ڈائنو سارز کی لمبائی لگ بھگ 60 فٹ اور گردنیں لمبی تھیں۔ بنیادی طور پر یہ سبزی خور جانور تھے۔

پگڈنڈیوں کا ایک پانچواں مجموعہ میگالوسورس نسل کے ڈائنو سارز کی گزرگاہ تھی۔ یہ وحشی اور خونخوار ڈائنو سارز تھے جن کی لمبائی تقریباً 9 میٹر یعنی 30 فٹ تھی۔ یہ شکاری صفات کے حامل گوشت خور ڈائنو سارز تھے۔ چونے کے پتھروں پر ان کے تین پنجوں والے نشان ثبت ہیں۔ ان ڈائنو سارز کی شناخت دو صدیاں قبل ہوئی تھی۔

ایک ایسے علاقے میں جہاں سبزی خور اور گوشت خورڈائنو سارز کی گزرگاہیں ایک دوسرے کو کاٹ رہی ہیں، ذہنوں میں ان کے درمیان تعلق کے بارے میں سوالات اٹھاتی ہیں۔

یونیورسٹی آف برمنگھم کی جاری کردہ اس تصویر میں ڈائنو سارزکی پانچ پگڈنڈیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اسے ماہرین نے ڈائنوسارز کی ہائی وے کا نام دیا ہے۔فوٹو اے پی 2 جنوری 2025
یونیورسٹی آف برمنگھم کی جاری کردہ اس تصویر میں ڈائنو سارزکی پانچ پگڈنڈیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اسے ماہرین نے ڈائنوسارز کی ہائی وے کا نام دیا ہے۔فوٹو اے پی 2 جنوری 2025

آکسفورڈ یونیورسٹی آف نیچرل ہسٹری میں ریڑھ کی ہڈی والے قدیم جانوروں کی ایک ماہر ایما نکولس کہتی ہیں کہ سائنس دان، طویل عرصے سے زمین پر موجود کسی بھی دوسری قسم کے ڈائنو سارز کی نسبت میگالوسورس کے متعلق زیادہ جانتے ہیں اور اس پر تحقیق کرتے رہے ہیں۔ لیکن اس نئی دریافت سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ ابھی اور بھی بہت کچھ جاننا باقی ہے۔

لگ بھگ 30 سال پہلے چونے کے پتھر کی ایک کان میں ڈائنو سارز کے پاؤں کے نشانات کے 40 مجموعے دریافت ہوئے تھے، جسے ڈائنو سارز کی گزرگاہ کے طور پر سائنسی اہمیت کی ایک اہم ترین دریافت قرار دیا گیا تھا۔ لیکن یہ علاقہ زیادہ تر ناقابل رسائی ہے اور ان دریافتوں کے بارے میں تصویری شواہد بہت محدود ہیں کیونکہ اس وقت تک ڈیجیٹل کیمرے اور ڈرونز ایجاد نہیں ہوئے تھے۔

لیکن موجودہ سائٹ پر موسم گرما میں کام کرنے والے ماہرین نے 20 ہزار سے زیادہ ڈیجیٹل تصویریں بنائی ہیں اور تھری ڈی ماڈل بنانے کے لیے ڈورنز کا بھی استعمال کیا ہے۔ ان دستاویزات سے ڈائنو سارز کے حجم ، ان کے چلنے پھرنے اور رفتار کے متعلق مزید جاننے میں مدد ملے گی۔

آکسفورڈ یونیورسٹی نیچرل ہسٹری میوزیم کی ڈاکٹر ایما نکولس چونے کے پتھر کی کانوں کے علاقے میں ڈائنو سارز کی ایک گزرگاہ میں ان کے پاؤں کے نشانات کا معائنہ کر رہی ہیں۔ 2 جنوری 2025
آکسفورڈ یونیورسٹی نیچرل ہسٹری میوزیم کی ڈاکٹر ایما نکولس چونے کے پتھر کی کانوں کے علاقے میں ڈائنو سارز کی ایک گزرگاہ میں ان کے پاؤں کے نشانات کا معائنہ کر رہی ہیں۔ 2 جنوری 2025

آکسفورڈ میوزیم کے ارتھ سائنٹسٹ ڈنکن مرڈوک کہتے ہیں کہ اکھٹے کیے گئے شواہد اتنے تفصیلی ہیں کہ ہم یہ دیکھ سکتے ہیں کہ ڈائنو سارز کے پاؤں رکھنے اور اٹھنے سے دب کر گارے نے کیسی شکل اختیار کی تھی۔

ان کامزید کہنا تھا کہ ڈائنو سارز کے عہد سے متعلق دیگر باقیات، مثال کے طور ان کے ڈھانچے، نشانات اور پودوں کو ساتھ رکھ کر ان نئی دریافتوں کی مدد سے ہم ان کی زندگی کی جھلک دیکھ سکتے ہیں کہ وہ کس طرح دلدلی علاقوں سے گزرتے اور چلتے پھرتے تھے۔

چونے کی کانوں سے حاصل ہونے والی ان دریافتوں کو میوزیم کی ایک نئی نمائش میں رکھا جائے گا۔

(اس رپورٹ کی کچھ معلومات اے پی سے لی گئیں ہیں)

فورم

XS
SM
MD
LG