اسلام آباد —
پاکستانی حکومت کی تشکیل کردہ چار رکنی کمیٹی اور کالعدم تحریک طالبان کی شوریٰ کے درمیان پہلے براہ راست مذاکرات بدھ کو قبائلی علاقے شمالی وزیرستان کی سرحد کے قریب نامعلوم مقام پر ہوئے۔
حکومت کی چار رکنی کمیٹی اور طالبان کی مذاکراتی ٹیم پشاور سے ہیلی کاپٹر کے ذریعے صوبہ خیبر پختونخواہ کے جنوبی علاقے ٹل پہنچی جہاں سے وہ نا معلوم مقام کی جانب روانہ ہو گئے۔
اطلاعات کے مطابق نماز ظہر کے بعد شروع ہونے والا مذاکرات کا دوسرا بھی ختم ہو گیا جس میں فائر بندی میں توسیع سے متعلق بات چیت کی گئی۔
تاہم مذاکرات کے ایجنڈے یا اس میں ممکنہ پیش رفت سے متعلق باضابطہ طور پر کچھ نہیں بتایا گیا۔
وزارت داخلہ کے ذرائع کے مطابق حکومت کی مذاکراتی کمیٹی نے طالبان کی شوریٰ سے مذاکرات سے قبل وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار سے رابطہ بھی کیا۔
حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے قانون سازوں نے براہ راست مذاکراتی عمل کے آغاز کو خوش آئند قرار دیا ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما سینیٹر راجہ ظفر الحق نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ شکوک و شہبات کے باوجود مذاکرات کا عمل کامیابی سے آگے بڑھ رہا ہے۔
’’اصل میں جو سلسلہ اس دفعہ شروع ہوا ہے، باوجود اس بات کے بہت سارے شکوک شبہات تھے اس کی کامیابی کے بارے میں، لیکن اب تک جو جو بات آگے بڑھ رہی ہے وہ بڑی قابل اطمینان ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ احساس اب جتنے بھی اسٹیک ہولڈز ہیں ان کے اندر موجود ہے کہ مذاکرات کے اس سلسلے کو کامیاب ہونا چاہیے۔۔۔۔۔ اس لحاظ سے جس محتاط طریقے سے یہ سارا سلسلہ شروع کیا گیا ہے اور جتنی مشاورت ہوئی ہے اتنا کسی دوسرے معاملے پر لوگوں سے مشورہ نہیں کیا گیا ہے۔‘‘
براہ راست بات چیت سے قبل رواں ہفتے کے اوائل میں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اور سرکاری مذاکراتی ٹیم کے درمیان ملاقات ہوئی، جس میں فوج کے خفیہ ادارے ’آئی ایس آئی‘ کے سربراہ لفٹینینٹ جنرل ظہیر الاسلام بھی موجود تھے۔
مذاکرات کے ایجنڈے کے بارے میں اگرچہ باضابطہ طور پر تو کچھ نہیں بتایا گیا لیکن مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق حکومت طالبان سے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے اغواء کیے گئے بیٹوں کے علاوہ پشاور یونیورسٹی کے وائس چانسلر محمد اجمل خان کی رہائی کا مطالبہ بھی کیا۔
اس سے قبل کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے اپنی مذاکراتی کمیٹی کے ذریعے حکومت کو 300 غیر عسکری افراد کی ایک فہرست فراہم کرتے ہوئے ان کی رہائی کے لیے کہا تھا۔ حکومت کی طرف سے تاحال اس بارے میں کوئی موقف سامنے نہیں آیا۔
طالبان نے مارچ کے اوائل میں ایک ماہ کی ’فائر بندی‘ کا اعلان کیا تھا، جس کے بعد حکومت کی طرف سے بھی طالبان جنگجوؤں کے ٹھکانوں کے خلاف فضائی کارروائیاں معطل کر دی گئیں۔
اگرچہ فائر بندی کے اعلان کے باوجود وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی ضلعی کچہری سمیت ملک کے مختلف مقامات پر دہشت گرد حملے ہوئے۔
غیر معروف شدت پسند تنظیم احرار الہند نے اس کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اپنے بیانات میں دعویٰ کیا کہ وہ ماضی میں تحریک طالبان پاکستان کا حصہ رہ چکی ہے۔ تاہم طالبان نے اس سے لاتعلقی کا اظہار کیا تھا۔
طالبان سے مذاکرات کے لیے تشکیل کردہ سرکاری کمیٹی پورٹس اور شیپنگ کے وفاقی سیکرٹری حبیب اللہ خان خٹک، ایڈیشنل چیف سیکرٹری فاٹا ارباب محمد عارف، وزیرِاعظم سیکرٹریٹ میں ایڈیشنل سیکرٹری فواد حسن فواد اور صوبہ خیبر پختونخواہ کی حکمران جماعت تحریک انصاف کے رستم شاہ مہمند پر مشتمل ہے۔
حکومت کی چار رکنی کمیٹی اور طالبان کی مذاکراتی ٹیم پشاور سے ہیلی کاپٹر کے ذریعے صوبہ خیبر پختونخواہ کے جنوبی علاقے ٹل پہنچی جہاں سے وہ نا معلوم مقام کی جانب روانہ ہو گئے۔
اطلاعات کے مطابق نماز ظہر کے بعد شروع ہونے والا مذاکرات کا دوسرا بھی ختم ہو گیا جس میں فائر بندی میں توسیع سے متعلق بات چیت کی گئی۔
تاہم مذاکرات کے ایجنڈے یا اس میں ممکنہ پیش رفت سے متعلق باضابطہ طور پر کچھ نہیں بتایا گیا۔
وزارت داخلہ کے ذرائع کے مطابق حکومت کی مذاکراتی کمیٹی نے طالبان کی شوریٰ سے مذاکرات سے قبل وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار سے رابطہ بھی کیا۔
حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے قانون سازوں نے براہ راست مذاکراتی عمل کے آغاز کو خوش آئند قرار دیا ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما سینیٹر راجہ ظفر الحق نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ شکوک و شہبات کے باوجود مذاکرات کا عمل کامیابی سے آگے بڑھ رہا ہے۔
’’اصل میں جو سلسلہ اس دفعہ شروع ہوا ہے، باوجود اس بات کے بہت سارے شکوک شبہات تھے اس کی کامیابی کے بارے میں، لیکن اب تک جو جو بات آگے بڑھ رہی ہے وہ بڑی قابل اطمینان ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ احساس اب جتنے بھی اسٹیک ہولڈز ہیں ان کے اندر موجود ہے کہ مذاکرات کے اس سلسلے کو کامیاب ہونا چاہیے۔۔۔۔۔ اس لحاظ سے جس محتاط طریقے سے یہ سارا سلسلہ شروع کیا گیا ہے اور جتنی مشاورت ہوئی ہے اتنا کسی دوسرے معاملے پر لوگوں سے مشورہ نہیں کیا گیا ہے۔‘‘
براہ راست بات چیت سے قبل رواں ہفتے کے اوائل میں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اور سرکاری مذاکراتی ٹیم کے درمیان ملاقات ہوئی، جس میں فوج کے خفیہ ادارے ’آئی ایس آئی‘ کے سربراہ لفٹینینٹ جنرل ظہیر الاسلام بھی موجود تھے۔
مذاکرات کے ایجنڈے کے بارے میں اگرچہ باضابطہ طور پر تو کچھ نہیں بتایا گیا لیکن مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق حکومت طالبان سے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے اغواء کیے گئے بیٹوں کے علاوہ پشاور یونیورسٹی کے وائس چانسلر محمد اجمل خان کی رہائی کا مطالبہ بھی کیا۔
اس سے قبل کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے اپنی مذاکراتی کمیٹی کے ذریعے حکومت کو 300 غیر عسکری افراد کی ایک فہرست فراہم کرتے ہوئے ان کی رہائی کے لیے کہا تھا۔ حکومت کی طرف سے تاحال اس بارے میں کوئی موقف سامنے نہیں آیا۔
طالبان نے مارچ کے اوائل میں ایک ماہ کی ’فائر بندی‘ کا اعلان کیا تھا، جس کے بعد حکومت کی طرف سے بھی طالبان جنگجوؤں کے ٹھکانوں کے خلاف فضائی کارروائیاں معطل کر دی گئیں۔
اگرچہ فائر بندی کے اعلان کے باوجود وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی ضلعی کچہری سمیت ملک کے مختلف مقامات پر دہشت گرد حملے ہوئے۔
غیر معروف شدت پسند تنظیم احرار الہند نے اس کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اپنے بیانات میں دعویٰ کیا کہ وہ ماضی میں تحریک طالبان پاکستان کا حصہ رہ چکی ہے۔ تاہم طالبان نے اس سے لاتعلقی کا اظہار کیا تھا۔
طالبان سے مذاکرات کے لیے تشکیل کردہ سرکاری کمیٹی پورٹس اور شیپنگ کے وفاقی سیکرٹری حبیب اللہ خان خٹک، ایڈیشنل چیف سیکرٹری فاٹا ارباب محمد عارف، وزیرِاعظم سیکرٹریٹ میں ایڈیشنل سیکرٹری فواد حسن فواد اور صوبہ خیبر پختونخواہ کی حکمران جماعت تحریک انصاف کے رستم شاہ مہمند پر مشتمل ہے۔