امریکہ میں صدارتی انتخابات سے قبل ہونے والے مباحثوں کا انتظام کرنے والے کمشن نے کہا ہے کہ وہ مباحثوں کے طریقۂ کار میں تبدیلیاں کر رہا ہے جس سے اس صورت حال اور بدنظمی کو روکنے میں مدد ملے گی جس کا مشاہدہ پہلے صدارتی مباحثے کے دوران ہوا تھا۔
بدھ کو کمشن نے اپنے بیان میں کہا کہ پہلے صدارتی مباحثے سے یہ عیاں ہوا کہ گفتگو کے دوران نظم و ضبط برقرار رکھنے، اور خلل اندازی کو روکنے کے لیے ایسی بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے، جس سے یہ یقینی بنانے میں مدد ملے کہ مباحثے میں بہتر نظم و ضبط کے ساتھ طے کردہ موضوعات پر بحث ہو سکے۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق کمشن کے ایک عہدیدار نے اپنا نام پوشیدہ رکھنے کی استدعا کرتے ہوئے بتایا کہ ایک تجویز یہ ہے کہ مباحثے میں جب ایک امیدوار گفتگو کر رہا ہو تو مباحثے کے میزبان کو یہ اختیار ہو کہ وہ بوقت ضرورت دوسرے امیدوار کا مائیکروفون بند کر سکے۔
واضح رہے کہ امریکہ میں صدارتی انتخابات سے قبل تین مباحثے ہوتے ہیں، جن میں سے پہلا مباحثہ ہو چکا ہے، جب کہ دوسرا مباحثہ میامی کے ٹاؤن ہال میں 15 اکتوبر کو ہو گا۔
نیلسن کمپنی کے مطابق پہلے صدارتی مباحثے کو ٹیلی وژن پر سات کروڑ 31 لاکھ افراد نے دیکھا۔ خیال رہے کہ 2016 میں ڈونلڈ ٹرمپ اور ہلری کلنٹن کے درمیان ہونے والے پہلے مباحثے کو دیکھنے والوں کی تعداد آٹھ کروڑ 40 لاکھ تھی۔
'اے پی' کے مطابق پہلے مباحثے میں دونوں امیدوار ایک دوسرے کی گفتگو کے دوران بار بار مداخلت کرتے رہے۔ جب کہ مباحثے کے میزبان اور امریکی نشریاتی ادارے 'فاکس نیوز' کے صحافی کرس والس کو انہیں مداخلت سے روکنے میں مشکلات پیش آتی رہیں۔
'اے بی سی نیوز' سے تعلق رکھنے والی اینکر مارتھا راڈاز نے، جنہوں نے 2016 کے تین صدارتی مباحثوں میں سے ایک کی میزبانی کی تھی، کہا ہے کہ دونوں صدارتی امیدواروں نے میزبان کرس والس کو مشکل صورت حال میں ڈالے رکھا۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر وہ کرس والس کی جگہ ہوتیں تو مباحثہ روک دیتیں تاکہ مباحثے کے معیار کو قائم رکھا جا سکے۔
مارتھا راڈاز کے مطابق چار سال قبل بھی ان کے پاس مباحثے کے مقررین کا مائیک بند کرنے کا اختیار نہیں تھا۔
مباحثے میں بدنظمی پر مائیک بند کرنے سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ مباحثے سے قبل فریقین کی جانب سے تسلیم کیے گئے ضوابط میں بھی اس کا ذکر نہیں تھا۔
ان کے بقول یہ کہنا کہ فریقین میں سے چوں کہ کوئی قواعد و ضوابط پر عمل نہیں کرے گا، اس لیے ہم بھی اسے نظرانداز کر دیں، تو یہ ایک انتہائی غیر معمولی صورتِ حال ہو گی۔
واضح رہے کہ سوشل میڈیا پر کرس والس کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ وہ مباحثے پر اپنا کنٹرول قائم رکھنے میں ناکام رہے۔