پاکستان کے دوسرے بڑے شہر لاہور میں ہونے والے خودکش بم دھماکے میں ہلاکتوں کی تعداد 70 ہو گئی ہے جب کہ 300 سے زائد زخمیوں میں سے اکثریت کی حالت تشویشناک ہونے کی وجہ سے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے۔
اتوار کی شام یہ دھماکا گنجان آباد علاقے اقبال ٹاون کے گلشن اقبال پارک میں ہوا جہاں لوگوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ ہلاک و زخمی ہونے والوں میں خواتین اور بچوں کی ایک بڑی تعداد بھی شامل ہے۔
کالعدم تحریک طالبان سے علیحدہ ہونے والے شدت پسندوں کے ایک دھڑے جماعت الاحرار نے یہ دہشت گرد حملہ کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
اس واقعے پر ملک بھر کی فضا سوگوار ہے۔ صوبہ پنجاب میں تین جب کہ دیگر صوبوں میں ایک روزہ سوگ منایا جا رہا ہے۔
ملک کی سیاسی و عسکری قیادت نے دہشت گرد واقعے میں ملوث عناصر کو ہر صورت انصاف کے کٹہرے میں لانے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
وزیراعظم نواز شریف پیر کو لاہور پہنچے جہاں اُنھوں نے جناح اسپتال میں زخمیوں کی عیادت کی۔
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار بھی وزیراعظم کے ہیں، بعد ازاں لاہور میں وزیراعظم نواز شریف نے کی زیر صدارت ایک اعلیٰ سطحی اجلاس ہوا جس میں سلامتی سے متعلق اُمور کا جائزہ لیا گیا۔
اس سے قبل اتوار کی شب وزیراعظم نواز شریف نے اسلام آباد میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ لاہور بم دھماکے میں ملوث دہشت گردوں اور ان کے معاونین سے ہر قیمت پر نمٹا جائے گا۔ ان کے بقول شکست کھاتے ہوئے دہشت گرد ایسی بزدل کارروائیاں کر رہے ہیں۔
بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کی زیر صدارت بھی راولپنڈی میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کی جس میں آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس کے سربراہان شریک تھے۔
جنرل راحیل کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کو لوگوں کی آزادی اور زندگی کو روندنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور لاہور دھماکے کے ذمہ دار عناصر کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
انھوں نے متعلقہ فوجی کمانڈروں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کو ہدایت کی کہ وہ فوری طور پر اس واقعے کے ذمہ دار عناصر کا پتا لگانے کے لیے کارروائی کا آغاز کریں۔
ادھر مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق پولیس کی ابتدائی تحقیقات میں مشتبہ خودکش حملہ آور کا تعلق پنجاب کے ضلع مظفر گڑھ سے تھا اور پولیس نے اس کے چند رشتے داروں کو حراست میں لیا ہے۔