واشنگٹن —
امریکی محکمہٴانصاف نے جمعرات کے روز عدالت سے بوسٹن میراتھن ریس بم دھماکہ کیس میں مبینہ حملہ آور، زوخار اے سارنیف کو موت کی سزا دینے کی درخواست کی ہے۔
اُن پر گذشتہ سال بوسٹن میراتھن ریس کی ’فِنش لائن‘ کے قریب ہونے والے دیسی بم دھماکوں میں ملوث ہونے کا الزام ہے، جس دہشت گرد واقعے کے نتیجے میں متعدد لوگ ہلاک اور زخمی ہوئے تھے۔
سزا کی التجا سے متعلق اِس فیصلے کے تعین کے بعد، اگر عدالت ملزم کو تجویز کردہ سزا دیتی ہے، تو 1995ء کے بعد یہ موت کی پہلی سزا ہوگی۔
یاد رہے کہ اوکلاہوما سٹی کی ’الفریڈ پی مُرے‘ نامی وفاقی عمارت پر ہونے والے بم دھماکے کے جرم ثابت ہونے پر، ٹموتھی جے مک واگ کو موت کی سزا دی گئی تھی۔
استغاثے کا کہنا ہے کہ سارنیف اور اُن کے بڑے بھائی، تمرلان نے پریشر کُکر بم بنائے تھے، اور 13 سیکنڈ کے وقفے سے، میراتھن کی ’فنش لائن‘ کے قریب دھماکے کیے، جن کے نتیجے میں تین افراد ہلاک اور 260 سے زائد زخمی ہوئے۔
تاہم، اس رپورٹ میں سزائے موت سے متعلق وفاقی قانونی مشیر کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ استغاثے کی طرف سے یہ حرفِ آخر نہیں ہے، کیونکہ ماضی میں وفاق کی طرف سے سزائے موت کے تقریباً نصف مقدمات میں، سماعت کے دوران، مؤقف میں نظر ثانی کی گئی، جس کی عمومی وجہ ’پِلی ڈیل‘ کا معاملہ تھا۔
اٹارنی جنرل، ایک ہولڈر کو یہ اختیار حاصل ہے کہ کسی بڑے جرم کے سلسلے میں استغاثے کو سزائے موت تجویز کرنے کا اختیار دے دیں۔ اُنھوں نے کہا ہے کہ ذاتی طور پر وہ سزائے موت کے خلاف ہیں، لیکن اُنھوں نے کئی بار اِس کا اختیار دیا ہے۔
بعدازاں، دونوں ملزم برادران، تمرلان اور سارنیف کی تلاش کے دوران ایک پولیس عہدے دار ہلاک ہوا تھا۔ تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ اِنہی ملزمان نے بوسٹن بم حملوں کی سازش کی تھی اور اِن میں ملوث تھے۔ اُس وقت، تمرلان کی عمر 26 جب کہ زوخار سارنیف 20 برس کے تھے۔ جب سارنیف کو پکڑا گیا، وہ ایک کشتی میں چھپے ہوئے بیٹھے تھے۔
مقدمے کی سماعت کی تاریخ کا ابھی تک تعین نہیں ہوا، جب کہ سارنیف نے اقبالِ جرم سے انکار کیا ہے۔
اخبار ’نیو یارک ٹائمز‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق، ملزم کے وکلا کی ٹیم میں جوڈی کلارک شامل ہیں، جو سزائے موت کے معاملات میں ملک کی ایک چوٹی کی وکیل تصور کی جاتی ہیں۔ ماضی میں، وہ بم حملہ آور، تھیوڈور کزنسکی اور 11 ستمبر کے دہشت گرد واقعے کی سازش میں ملوث، زکیہ موسوی کی وکالت کر چکی ہیں۔
حکام نے الزام لگایا ہے کہ سارنیف نے کشی پر متعدد پیغامات تحریر کیے، جِن میں سے ایک میں لکھا تھا: ’ہم مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں، ایک کو تکلیف پہنچائی جائے تو سب کو تکلیف ہوتی ہے‘۔
اُن پر گذشتہ سال بوسٹن میراتھن ریس کی ’فِنش لائن‘ کے قریب ہونے والے دیسی بم دھماکوں میں ملوث ہونے کا الزام ہے، جس دہشت گرد واقعے کے نتیجے میں متعدد لوگ ہلاک اور زخمی ہوئے تھے۔
سزا کی التجا سے متعلق اِس فیصلے کے تعین کے بعد، اگر عدالت ملزم کو تجویز کردہ سزا دیتی ہے، تو 1995ء کے بعد یہ موت کی پہلی سزا ہوگی۔
یاد رہے کہ اوکلاہوما سٹی کی ’الفریڈ پی مُرے‘ نامی وفاقی عمارت پر ہونے والے بم دھماکے کے جرم ثابت ہونے پر، ٹموتھی جے مک واگ کو موت کی سزا دی گئی تھی۔
استغاثے کا کہنا ہے کہ سارنیف اور اُن کے بڑے بھائی، تمرلان نے پریشر کُکر بم بنائے تھے، اور 13 سیکنڈ کے وقفے سے، میراتھن کی ’فنش لائن‘ کے قریب دھماکے کیے، جن کے نتیجے میں تین افراد ہلاک اور 260 سے زائد زخمی ہوئے۔
تاہم، اس رپورٹ میں سزائے موت سے متعلق وفاقی قانونی مشیر کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ استغاثے کی طرف سے یہ حرفِ آخر نہیں ہے، کیونکہ ماضی میں وفاق کی طرف سے سزائے موت کے تقریباً نصف مقدمات میں، سماعت کے دوران، مؤقف میں نظر ثانی کی گئی، جس کی عمومی وجہ ’پِلی ڈیل‘ کا معاملہ تھا۔
اٹارنی جنرل، ایک ہولڈر کو یہ اختیار حاصل ہے کہ کسی بڑے جرم کے سلسلے میں استغاثے کو سزائے موت تجویز کرنے کا اختیار دے دیں۔ اُنھوں نے کہا ہے کہ ذاتی طور پر وہ سزائے موت کے خلاف ہیں، لیکن اُنھوں نے کئی بار اِس کا اختیار دیا ہے۔
بعدازاں، دونوں ملزم برادران، تمرلان اور سارنیف کی تلاش کے دوران ایک پولیس عہدے دار ہلاک ہوا تھا۔ تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ اِنہی ملزمان نے بوسٹن بم حملوں کی سازش کی تھی اور اِن میں ملوث تھے۔ اُس وقت، تمرلان کی عمر 26 جب کہ زوخار سارنیف 20 برس کے تھے۔ جب سارنیف کو پکڑا گیا، وہ ایک کشتی میں چھپے ہوئے بیٹھے تھے۔
مقدمے کی سماعت کی تاریخ کا ابھی تک تعین نہیں ہوا، جب کہ سارنیف نے اقبالِ جرم سے انکار کیا ہے۔
اخبار ’نیو یارک ٹائمز‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق، ملزم کے وکلا کی ٹیم میں جوڈی کلارک شامل ہیں، جو سزائے موت کے معاملات میں ملک کی ایک چوٹی کی وکیل تصور کی جاتی ہیں۔ ماضی میں، وہ بم حملہ آور، تھیوڈور کزنسکی اور 11 ستمبر کے دہشت گرد واقعے کی سازش میں ملوث، زکیہ موسوی کی وکالت کر چکی ہیں۔
حکام نے الزام لگایا ہے کہ سارنیف نے کشی پر متعدد پیغامات تحریر کیے، جِن میں سے ایک میں لکھا تھا: ’ہم مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں، ایک کو تکلیف پہنچائی جائے تو سب کو تکلیف ہوتی ہے‘۔