پاکستان کے صوبہ پنجاب کے محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) نے ایک کارروائی کے دوران شدت پسند تنظیم داعش کے آٹھ مبینہ ارکان کو گرفتار کرنے کو دعویٰ کیا ہے۔
محکمہ انسداد دہشت گردی کے ترجمان کے مطابق یہ کارروائی جمعرات کو لاہور شہر میں کی گئی اور انہیں اس وقت گرفتار کیا گیا جب یہ لوگ داعش کی کارروائیوں میں حصہ لینے کے لیے شام اور افغانستان جانے کی تیاری کر رہے تھے۔
’سی ٹی ڈی‘ کا کہنا ہے کہ اس گروہ سے منسلک کئی ارکان پہلے ہی افغانستان اور شام جا چکے ہیں۔
بتایا گیا ہے اس گروہ میں کئی خواتین بھی شامل ہیں جو تا حال مفرور ہیں اور انہیں گرفتار کرنے کے لیے کارروائی جاری ہے۔
ملزمان کے قبضے سے شدت پسند تنطیم داعش کا لٹریچر، لیپ ٹاپ اور موبائل فونز بھی برآمد کیے گئے ہیں۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ گرفتار کیے جانے والے افراد کافی عرصے سے لاہور میں سرگرم تھے اور سی ٹی ڈی گزشتہ تین ماہ سے ان کی سرگرمیوں کی نگرانی کر رہی تھی اور 16 نومبر کو اچانک چھاپہ مار کر انہیں گرفتار کر لیا گیا۔
سی ٹی ڈی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ گرفتار کیے جانے والے شدت پسندوں میں ان کا سرغنہ نبیل عرف ابی عبداللہ بھی شامل ہے اور اس کا تعلق لاہور سے بتایا جاتا ہے اور یہ صوبہ پنجاب میں لوگوں کو شدت پسندی کی طرف مائل کرنے کی سرگرمیوں میں مبینہ طور پر ملوث رہا ہے۔
ترجمان کا کہنا ہے کہ محکمہ انسداد دہشت گردی نے گرفتار کیے جانے والے افراد کے خلاف مقدمہ درج کر کے تفتیش شروع کر دی ہے۔
بتایا گیا ہے کہ اس شدت پسند گروپ کا ایک اہم رکن قاری عابد پہلے ہی شام جا چکا ہے اور وہ وہاں سے سماجی میڈیا کے ذریعے لوگوں کو شدت پسندی کی طرف راغب کرنے کی سرگرمیوں میں مبینہ طور ملوث کرنے کا ایک بڑا محرک ہے۔
اگرچہ پاکستانی حکام اس بات سے انکار کرتے ہیں کہ داعش شدت پسند تنظیم کا کوئی منظم نیٹ ورک پاکستان میں موجود ہے تاہم وہ اس بات کی تصدیق کر چکے ہیں کہ رواں سال کئی پاکستان شہری شدت پسند گروہ داعش میں شامل ہونے کے لیے شام جا چکے ہیں۔