بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں بدھ کو علیحدگی پسندوں کی طرف سے احتجاجی مارچ کا اعلان کیے جانے کے بعد ایک بار پھر مختلف علاقوں میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔
ایک روز قبل ہی مرکزی شہر سری نگر میں اور مختلف جنوبی علاقوں سے تقریباً دو ہفتوں سے زائد عرصے سے نافذ کرفیو کو ختم کیا گیا تھا لیکن اس کے ساتھ ہی ایک بار پھر مختلف علاقوں میں مظاہرے دیکھنے میں آئے۔
بدھ کو اننت ناگ، اور کلگام کے اضلاع میں کرفیو نافذ کر دیا گیا جب کہ شوپیاں اور پلواما کے اضلاع میں دفعہ 144 نافذ کرتے ہوئے کسی بھی طرح کے اجتماع پر پابندی عائد کرنے کی اطلاعات ہیں۔
رواں ماہ کے اوائل میں ایک علیحدگی پسند کمانڈر برہان وانی کے سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مارے جانے کے بعد کشمیر میں صورتحال انتہائی کشیدہ ہوگئی اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کے خلاف مظاہرہ کرتے ہوئے سڑکوں پر نکلنا شروع ہوگئے۔
اس دوران ہونے والی جھڑپوں میں 45 سے زائد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو چکے ہیں۔
17 روز تک انٹرنیٹ اور موبائل فون سروس کی معطلی کے بعد منگل کو یہ سہولتیں بحال کی گئی تھیں لیکن تازہ مظاہروں کے خدشے کے پیش نظر تقریباً دس اضلاع میں انھیں پھر سے جزوی طور پر معطل رکھنے کا بتایا جاتا ہے۔
بھارت کا اپنے پڑوسی ملک پاکستان کے ساتھ کشمیر پر تنازع ہے اور وہ یہ الزام عائد کرتا ہے کہ پاکستان کشمیر میں علیحدگی پسندوں کی حمایت کر کے اسے غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
تاہم پاکستان ان دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ کشمیر کے عوام کی سفارتی اور سیاسی حمایت جاری رکھے ہوئے اور بھارت کو چاہیے کہ وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے کشمیریوں کو دیے گئے حق خودارادیت پر عملدرآمد کرے۔
کشمیر کا ایک حصہ بھارت ایک پاکستان کے زیر انتظام ہے۔