امریکہ کی ریاست شمالی کیرولائنا کے شہر شارلٹ میں تین روز سے جاری مظاہروں کے بعد جمعرات کو دیر گئے میئر نے کرفیو نافذ کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن سیکڑوں مظاہرین نے جمعہ کو علی الصبح تک کرفیو کی پروا کیے بغیر پرامن انداز میں اپنا احتجاج جاری رکھا۔
حکام کے کہنا ہے کہ مظاہرین کی طرف سے پرامن احتجاج کے باعث وہ کرفیو کو نافذ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔
شارلٹ میلکنبرگ پولیس کے میجر جیرالڈ اسمتھ کا کہنا تھا کہ "کرفیو امن و امان کو قائم رکھنے کا حربہ ہے اور اس وقت یہاں پرامن مظاہرہ ہو رہا ہے۔"
ذرائع ابلاغ پر نشر ہونے والے مناظر میں بعض لوگوں کو نیشنل گارڈز کے اہلکاروں کے ساتھ ہاتھ ملاتے ہوئے بھی دکھایا گیا۔
رواں ہفتے یہاں ایک سیاہ فام پولیس افسر نے اس وقت ایک سیاہ فام شخص کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا جب وہ اپنی گاڑی سے ایک بندوق کے ساتھ نکلا اور پولیس افسر نے اسے خطرے جان کا متنبہ کرنے کے بعد گولی چلا دی تھی۔
مرنے والے 43 سالہ کیتھ اسکاٹ کے لواحقین پولیس کے موقف سے اتفاق نہیں کرتے۔ اس ہلاکت کے بعد شہر میں مظاہرے شروع ہو گئے جن کا دائرہ بڑھنے کے علاوہ بعض مقامات پر یہ پرتشدد صورتحال اختیار کر گئے۔
بدھ کو مظاہرے کے دوران لگنے والی گولی سے زخمی ہونے والا نوجوان جمعرات کو دم توڑ گیا۔
بتایا جاتا ہے کہ 26 سالہ جسٹن کار مظاہرے کے قریب ایک ہوٹل کے باہر کھڑا تھا کہ ایک گولی کا نشانہ بنا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ یہ فائرنگ ان کی طرف سے نہیں کی گئی۔
شارلٹ میں ہونے والے مظاہروں میں پولیس سے جھڑپوں میں اب تک 30 سے زائد افراد زخمی ہو چکے ہیں۔
پولیس نے اسکاٹ کی ہلاکت کے واقعے کی وڈیو جاری کرنے سے انکار کر رکھا ہے لیکن جمعرات کو انھوں نے لواحقین کو اس کے مناظر دکھائے، جن کا کہنا تھا کہ اس میں یہ واضح نہیں ہو رہا کہ اسکاٹ نے ہاتھ میں اگر کچھ تھام رکھا تھا تو وہ کیا تھا۔
شارلٹ پولیس کے سربراہ کے اس بیان سے بھی یہ اشارہ ملتا ہے کہ پولیس کی وڈیو ریکارڈنگ میں اس بات کا تعین کرنے میں دشواری ہو رہی ہے کہ فائرنگ کے وقت اسکاٹ کے ہاتھ میں کیا تھا۔
پولیس کا کہنا تھا کہ اس نے جائے وقوع سے ایک پستول برآمد کیا تھا لیکن اسکاٹ کے لواحقین کا اصرار ہے کہ اس کے پاس کسی قسم کا اسلحہ نہیں تھا۔