صحافیوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی عالمی تنظیم 'کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس' (سی پی جے) نے الزام لگایا ہے کہ پاکستان کی حکومت نے تنظیم کے ایک عہدیدار کو پاکستان میں داخل ہونے سے روک دیا ہے۔
'سی پی جے' کی طرف سے جاری ایک بیان کے مطابق تنظیم کے ایشیا کے پروگرام مینیجر اسٹیون بٹلر کو حکام نے بتایا ہے کہ ان کا نام پاکستان کی وزارتِ داخلہ کی بلیک لسٹ میں شامل ہے جس کی وجہ سے انہیں پاکستان میں داخلے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
بیان کے مطابق اسٹیون بٹلر بدھ کو ایک پرواز کے ذریعے جب لاہور کے علامہ اقبال ایئر پورٹ پہنچے تو پاکستانی حکام نے ان کا پاسپورٹ ضبط کر کے انہیں قطر کے دارالحکومت دوحہ جانے والی ایک پرواز میں زبردستی سوار کرا دیا۔
'سی پی جے' کے مطابق اسٹیون بٹلر کے بقول لاہور ایئر پورٹ پر امیگریشن حکام نے انہیں بتایا کہ اگرچہ ان کے پاس پاکستان کا ویزا موجود ہے لیکن ان کا نام 'اسٹاپ لسٹ' میں موجود ہونے کے وجہ سے ان کا ویزہ 'کالعدم' قرار دے دیا گیا ہے۔
'سی پی جے' نے اسٹیون بٹلر کو پاکستان میں داخل ہونے سے روکنے کے اقدام کو حیران کن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اقدام تنظیم کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔
تنظیم کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر جوئیل سائمن نے پاکستانی حکام سے اسٹیون بٹلر کو پاکستان میں داخل ہونے سے روکنے کے اقدام کی وضاحت اور اس کا ازالہ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
جوئیل سائمن نے بیان میں مزید کہا ہے کہ اگر پاکستان کی حکومت آزاد صحافت سے متعلق اپنے عزم کو ظاہر کرنا چاہتی ہے تو اسے اس معاملے کی جلد از جلد شفاف تحقیقات کرنی چاہیے۔
بیان کے مطابق، اسٹیون بٹلر 'عاصمہ جہانگیر کانفرنس: روڈ میپ فار ہیومن رائٹس ان پاکستان' کے عنوان سے لاہور میں ہونے والی ایک بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کے لیے پاکستان آ رہے تھے۔
انسانی حقوق کے ادارے 'ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان' نے ایک ٹوئٹر بیان میں اسٹیون بٹلر کو لاہو ایئر پورٹ سے ملک بدر کرنے کے اقدام پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔
ادارے نے کہا ہے کہ ایک طرف حکومت، پاکستان کے تشخص کو بہتر کرنے کی دعوے دار ہے۔ لیکن، دوسری طرف وہ ایک ایسے معروف صحافی کو پاکستان آنے سے روک رہی جس کے پاس باقاعدہ ویزا تھا۔
'ایچ آر سی پی' کے سیکریٹری جنرل حارث خلیق نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اس اقدام کو غیر مناسب قرار دیتے ہوئے حکومت سے اس معاملے پر نظرِ ثانی کا مطالبہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جو کچھ سی پی جے نے کہا ہے، ایچ آر سی پی بھی اس سے اتفاق کرتی ہے۔
انہوں نے سوال کیا کہ مبینہ 'اسٹاپ لسٹ' کس نے مرتب کی ہے اور اس میں کون لوگ شامل ہیں؟
ان کے بقول، یہ ایک نامناسب بات ہے کہ کوئی غیر ملکی پاکستان پہنچے اور اسے ملک میں داخل ہونے سے روک دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ایسا کوئی واقعہ کسی پاکستانی کے ساتھ ہو تو ہمیں اس پر خفت اور افسوس ہو گا۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم 'ایمنسٹی انٹرنیشل' نے بھی اسٹیون بٹلر کے پاکستان میں داخلے کو روکنے کے اقدام پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ 'سی پی جے' کے عہدیدار کو ملک بدر کرنا پریشان کن امر ہے جو اس بات کا مظہر ہے کہ پاکستان میں آزادی صحافت بدستور حملے کی زد میں ہے۔
ایمنسٹی نے حکومتِ پاکستان سے اس اقدام کو فوری طور واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔
وائس آف امریکہ کی درخواست کی باوجود پاکستان کی وزارتِ اطلاعات و نشریات اور وزارتِ داخلہ نے اس معاملے پر تاحال کوئی موقف نہیں دیا ہے۔
البتہ، ایک حکومتی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ وزارتِ داخلہ کی 'اسٹاپ لسٹ' میں اگر کسی شخص کا نام ہو تو حکام اسے بیرونِ ملک یا اندرونِ ملک سفر سے روک سکتے ہیں۔