رسائی کے لنکس

بھارت: گیان واپی مسجد کے تہہ خانے میں پوجا کی اجازت، مسلمانوں کا اعلٰی عدلیہ سے رجوع کا اعلان


بھارت کی ریاست اترپردیش کے شہر وارانسی کی عدالت نے ہندوؤں کو گیان واپی مسجد کے تہہ خانے میں پوجا کی اجازت دے دی ہے۔ مسلمانوں نے فیصلے کے خلاف اعلٰی عدلیہ سے رُجوع کا اعلان کیا ہے۔

فیصلے میں ضلع مجسٹریٹ کو ہدایت دی کی گئی ہے کہ وہ ایک ہفتے کے اندر تہہ خانے تک جانے کے لیے کھڑی کی گئی رکاوٹیں دور کرے۔ یہ تہہ خانہ مسجد کے اندر ہے اور وہاں جانے پر اب تک پابندی عائد تھی۔

عدالت نے کاشی وشوناتھ مندر ٹرسٹ کو ہدایت دی کہ وہ عقیدت مندوں کو پوجا کرانے کے لیے پجاری مقرر کرے۔

ہندو فریق کے وکیل وشنو شنکر جین نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے اس فیصلے پر اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ضلعی مجسٹریٹ کی جانب سے رکاوٹیں ختم کیے جانے کے بعد ہر شخص کو وہاں پوجا کا اختیار مل گیا ہے۔

اُنہوں نے اس فیصلے کو 1983 میں بابری مسجد رام جنم بھومی مندر مقدمے میں دیے گئے اس فیصلے کے مشابہ قرار دیا جس میں جسٹس کے ایم موہن نے بابری مسجد کا تالا کھولنے اور مسجد کے اندر پوجا کرنے کی اجازت دی تھی۔ انھوں نے اس فیصلے کو تاریخی قرار دیا۔

ہندو فریق کے ایک اور وکیل مدن موہن یادو نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اب پوجا روکنے کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ یہ پہلا قدم ہے۔ اگر اس فیصلے کو چیلنج کیا جائے گا تو ہم اس کا جواب دیں گے۔

کاشی وشوناتھ مندر ٹرسٹ کے چیئرپرسن ناگیندر پانڈے نے ایک نشریاتی ادارے ’نیوز 18‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دو تین روز کے اندر پوجا شروع ہو جائے گی۔ ہم پوری مسجد میں پوجا کرنا چاہتے ہیں۔

یہ فیصلہ چار ہندو خواتین کی درخواستوں پر دیا گیا ہے جن میں مسجد کی مغربی دیوار پر گوری شنکر کی مورتی کی پوجا کی اجازت طلب کی گئی تھی۔

نریندر مودی کے ہاتھوں رام مندر کا افتتاح؛ بھارتی مسلمان کیا سوچ رہے ہیں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:38 0:00


ایک فریق نے دعویٰ کیا کہ تہہ خانے میں پجاری سومناتھ ویاس 1993 تک پوجا کرتے رہے ہیں۔ لیکن اس وقت کی اترپردیش کی ملائم سنگھ کی حکومت نے اس پر پابندی عائد کر دی تھی اور رکاوٹیں کھڑی کر کے اس حصے کو ممنوعہ قرار دے دیا تھا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق سومناتھ ویاس کے نواسے شیلیندر کمار پاٹھک نے عدالت سے تہہ خانے میں مورتیوں کی پوجا کی اجازت طلب کی تھی۔ ان کے مطابق مسجد کے وضو خانے کے پاس جو رکاوٹیں کھڑی کی گئی ہیں اب انھیں ہٹایا جائے گا۔

ہندو فریق کے وکیل ہری شنکر جین کے مطابق ملائم سنگھ حکومت کی جانب سے پوجا پر پابندی لگائی گئی تھی جسے اب عدالت نے بحال کر دیا ہے۔

مسلم فریق کی جانب سے عدالت میں اسدلال کیا گیا تھا کہ تہہ خانہ مسجد کے احاطے کا حصہ ہے۔ لہٰذا وہاں پوجا کی اجازت نہیں دی جانا چاہیے۔

رام جنم بھومی تیارتھ شیترا کے چیف پجاری آچاریہ ستیندر داس نے کہا کہ اس فیصلے سے ایک غلطی کو درست کر دیا گیا ہے۔ ان کے مطابق اب وہاں مستقل پوجا ہونی چاہیے۔ سچائی سامنے آگئی ہے۔

انجمن انتظامیہ مساجد کمیٹی نے اس فیصلے کو اترپردیش ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس بارے میں ہندو فریق نے کہا کہ وہ عدالت میں درخواست داخل کریں گے کے پہلے ان کے دلائل سنے جائیں۔

بھارتی مسلمانوں کے ایک متفقہ پلیٹ فارم ’آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ‘ نے فیصلے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے کہ گیان واپی مسجد کے اندر پوجا کی اجازت ناقابلِ قبول ہے۔

بیان کے مطابق آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے اس بات پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے کہ وارانسی ڈسٹرکٹ جج نے اپنی سروس کے آخری دن آج گیان واپی مسجد کے تہہ خانے میں ایک ہندو فریق کو پوجا کی اجازت دے دی۔

اُن کے بقول یہ فیصلہ مسلمانوں کے لیے ہرگز قابلِ قبول نہیں ہے اور وہ اسے الہ آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کریں گے۔

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ترجمان ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے کہا کہ یہ فیصلہ اس غلط اور بے بنیاد دلیل کی بنیاد پر دیا گیا کہ گیان واپی مسجد کے تہہ خانے میں 1993 تک سومناتھ ویاس کا پریوار پوجا کرتا تھا۔

ان کے بقول 24 جنوری کو تہہ خانے کو ضلعی انتظامیہ نے اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔ عدالت نے اس وقت اپنے حکم میں یہ بھی کہا تھا کہ صورتِ حال جوں کی توں برقرار رکھی جائے۔ آج اس میں ترمیم کرکے پوجا کی اجازت دے دی گئی۔ ظاہر ہے کہ اس کے بعد اس کیس میں کچھ نہیں بچتا۔

عدالت نے اپنے ایک حکم میں مسجد کے سروے کا حکم دے دیا جس میں سروے ٹیم نے حوض کے فوارہ کو شیو لنگ قرار دے کر حوض کے استعمال پر پابندی لگا دی تھی۔

ابھی معاملہ یہاں پر تھما نہیں تھا کہ ایک اور حکم میں مسجد کے سروے کا محکمہ آثارِ قدیمہ کو حکم دے دیا گیا جس نے اپنی رپورٹ میں مسجد کے نیچے ایک بڑے مندر کے آثار برآمد ہونے کا دعویٰ کیا اور اب ایک تیسرے فیصلہ میں مسجد کے تہہ خانے میں پوجا کی اجازت دی جا رہی ہے۔

ڈاکٹر الیاس نے اپنے بیان میں آگے کہا کہ بابری مسجد کے مقام پر مسجد تعمیر کر لینے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ اب ملک کے مختلف علاقوں کی متعدد مساجد کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے چاہے وہ کتنی ہی قدیم مساجد ہی کیوں نہ ہوں۔

دریں اثنا ’اسلامک سینٹر انڈیا، لکھنؤ‘ کے چیئرپرسن مولانا خالد رشید فرنگی محلی نے کہا کہ وہ وارانسی عدالت کے فیصلے سے مایوس ہیں۔ ان کے مطابق اس معاملے کو اعلیٰ عدالت میں چیلنج کرنے کا آپشن کھلا ہوا ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

فورم

XS
SM
MD
LG