پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقوں میں بیک وقت انسداد پولیو مہم کا آغاز کیا گیا ہے تاکہ انسانی جسم کو اپاہج بنانے والے اس وائرس سے نمٹنے کی کوششوں کو مربوط بنایا جا سکے۔
پاکستان میں انسداد پولیو کے قومی مرکز کے رابطہ کار ڈاکٹر رانا صفدر علی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ افغانستان کے تعاون سے ایک ہی وقت میں مہم کے چلانے کا مقصد سرحد کی دونوں جانب پانچ سال سے کم عمر تمام بچوں تک انسداد پولیو ٹیموں کی رسائی کو ممکن بنانا ہے۔
’’پولیو وائرس پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقے میں ہے، اس کے لیے ہم افغانستان کے انسداد پولیو پروگرام کے ساتھ مربوط (طریقے سے) کام کر رہے ہیں ۔۔۔۔ کہ کم از کم ہمارے (دونوں) کے سرحدی اضلاع ہیں وہاں ایک ہی وقت میں پولیو قطرے پلانے کی مہم شروع کی جائے اور ہر یونین کونسل میں دونوں طرف ٹیمیں ایک ہی وقت میں کام شروع کر رہی ہیں تاکہ کوئی بھی بچہ پولیو قطرے پینے سے محروم نا رہ جائے۔‘‘
افغانستان اور پاکستان کے درمیان طویل سرحد کے ذریعے بڑی تعداد میں لوگوں روزانہ ایک سے دوسرے ملک میں سفر کرتے ہیں۔
عہدیداروں کے مطابق ایک ہی وقت میں دونوں ملکوں کے سرحدی اضلاع میں انسداد پولیو مہم چلانے کا مقصد اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کرنا ہے کہ سفر کے دوران کوئی بھی بچہ پولیو سے بچاؤ کی ویکسین سے محروم نا رہے۔
دنیا بھر میں پاکستان اور افغانستان دو ایسے ملک ہیں جہاں پولیو وائرس اب بھی موجود ہے۔
ڈاکٹر رانا صفدر علی نے بتایا کہ پاکستان میں پولیو کے خاتمے کے لیے پیر سے شروع ہونے والی ملک گیر مہم میں پانچ سال سے کم عمر کے تین کروڑ ستر لاکھ بچوں کو پولیو وائرس سے بچاؤ کے قطرے پلائے جائیں گے۔
اُن کے بقول یہ مہم دو مرحلوں میں مکمل ہو گی۔ پہلے مرحلے میں تین روز کے دوران شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخوا، وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے 'فاٹا'، پاکستان کے زیر انتظام کشمیر، گلگت بلتستان اور بلوچستان میں پانچ سال سے کم عمر کے ایک کروڑ سے زائد بچوں کو پولیو کے قطرے پلوائے جائیں گے۔
جب کہ دوسرے مرحلے کا آغاز 23 مئی کا ہو گا جس میں صوبہ پنجاب، سندھ اور اسلام آباد میں پانچ سال سے کم عمر کے لگ بھگ دو کروڑ پچاس لاکھ بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ اس مہم میں دو لاکھ ایسے زائد رضاکار حصہ لیں گے جن کی سکیورٹی کے مناسب اقدامات کیے گئے ہیں۔
گزشتہ سال پاکستان میں پولیو کے 54 کیس سامنے آئے تھے جبکہ رواں سال اب تک پولیو وائرس سے 10 بچے متاثر ہو چکے ہیں۔
حکومت کا کہنا ہے کہ انسداد پولیو مہم کو کامیاب بنانے کے لیے علمائے دین سے مدد حاصل کی گئی ہے اور اس توقع کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ سلامتی کی صورت میں بہتری کے بعد اب انسداد پولیو ٹیموں کی رسائی اُن تمام علاقوں تک بھی ممکن ہو سکے گی جہاں ماضی میں خطرات کے باعث پہنچنا ممکن نہیں تھا۔