ایک وقت تھا جب جیسی مورٹن امریکہ میں القاعدہ کے پروپیگنڈا کا سرغنہ تھا۔ کایہ پلٹ کے بعد، اب وہ جہادیوں کے خلاف ایک نیا رسالہ نکال رہے ہیں۔
سنہ 2009میں نیویارک میں وہ یونس عبداللہ محمد کے مسلمان نام سے جانا جاتا تھا۔ اُس وقت وہ ’جہادی رکلیکشنز‘ جاری کرنے میں پیش پیش تھے، جو پرکشش آن لائن رسالوں میں سے ایک تھا، جو متعدد نوجوان جہادیوں کے لیے خصوصی دلچسپی کا باعث بنا رہا۔
رسالے کی اشاعت میں تصویری اور ڈیزائن کے معیار پر خاص دھیان دیا جاتا تھا۔
میگزین کو القاعدہ کا ’وینٹی فیئر‘ کہا جاتا تھا، جس کے بعد اِسی طرز پر کئی رسالے نکلے، جیسا کہ القاعدہ کا رسالہ ’انسپایر‘ اور داعش کا رسالہ ’دبیق‘ اور ’رمیہ‘۔
’انسپایر‘ میگزین کے پہلے شمارے میں جو بدنام مضمون چھپا تھا اُس کا عنوان تھا ’’ماں کے باورچی خانے میں بم بنائیے‘‘۔ اس کے دوسرے شمارے میں پڑھنے والوں کو یہ درس دیا گیا تھا کہ زیادہ سے زیادہ شہری اہداف کو نقصان پہنچانے کے لیے ٹرک کو کس طرح ہلاکت خیز مشین میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
اِن دِنوں مورٹن یکسر بدل چکا ہے۔ دہشت گردی کے الزامات پر انھوں نے چار برس تک قید کاٹی ہے۔ انھیں اس بات کا احساس ہے کہ ان کے آن لائن رسالے نے بہت سے افراد کو تشدد کی کارروائیوں کی ترغیب دی اور دہشت گردی پر اکسایا۔
مورٹن آئندہ جمعے کو ایک نیا رسالہ نکال رہے ہیں جس کی ڈیزائن وہی ہوگی جو ان کے رسالے ’جہاد ریکلیکشنز‘ کی ہوا کرتی تھی، جو ایک عشرہ قبل نکلا تھا۔ یہ رسالہ ان افراد کو متبادل آواز فراہم کرے گا جو ’’دہشت گردی اور پر تشدد انتہا پسندی کے طرز عمل اور رویے سے نفرت کرتے ہیں‘‘۔
مورٹن نے کہا ہے کہ ’’ہم ایسی ٹیمپلیٹ اور میڈئم استعمال کر رہے ہیں جو انتہائی کامیاب رہ چکی ہے۔ اسے واپس لے کر آپ ورثے کو ختم کر رہے ہیں‘‘۔
انتالیس صفحات پر مشتمل ’اہل تقویٰ‘ نامی رسالے کی گرافکس اور فوٹوگرافی پُر کشش ہے۔ اہل تقویٰ کا مطلب ’باضمیر افراد‘ ہے۔ رسالہ دیکھنے میں ’دبیق‘ یا ’انسپایر‘ لگتا ہے۔ لیکن، باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو یہ دبیق سے مختلف ہے، چونکہ دبیق میں تشدد پر اکسانے کی ترغیب دی جاتی تھی۔