رسائی کے لنکس

کرونا وائرس نے دنیا کو متحد کر دیا


جرمنی کے شہر پوسٹم میں لوگ خریداری کے لیے ایک سٹور کے باہر کھڑے ہیں اور حفاظت کے تحت اپنے درمیان طے شدہ فاصلہ رکھے ہوئے ہیں۔ 20 مارچ 2020
جرمنی کے شہر پوسٹم میں لوگ خریداری کے لیے ایک سٹور کے باہر کھڑے ہیں اور حفاظت کے تحت اپنے درمیان طے شدہ فاصلہ رکھے ہوئے ہیں۔ 20 مارچ 2020

کرونا وائرس نے دنیا بھر کے لوگوں کو بری طرح سے خوفزدہ کر رکھا ہے اور کم و بیش ہر شخص کے ذہن میں یہ سوال ہے کہ اب کیا ہو گا۔ ہر چند کہ یہ کوئی نامعلوم کا خوف نہیں ہے۔ خطرہ کیا ہے یہ سب جانتے ہیں۔ لیکن یہ کوئی نہی جانتا کہ یہ کب، کیسے اور کہاں سے حملہ آور ہو گا۔ بے یقینی کی اس صورت نے بیشتر لوگوں کو ذہنی دباؤ میں مبتلا کر رکھا ہے اور یہی ذہنی دباؤ ماہرین کے بقول خطرے میں اور اضافہ کر دیتا ہے۔

عام آدمی ہر وقت ایک خوف کی کیفیت میں نظر آتا ہے، لیکن اکثر ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ اس تخریب میں بھی تعمیر کا پہلو مضمر ہے۔ ڈاکٹر سہیل چیمہ ایک ممتاز ماہر نفسیات ہیں، جو یہاں امریکہ میں پریکٹس کرتے ہیں۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ درست ہے کہ اس وقت خوف و ہراس کی فضا ہے۔ لیکن اس فضا نے لوگوں کو اور قوموں کو یہ احساس دلایا ہے کہ اگر وہ متحد ہو کر اس کے خلاف بھرپور اقدام نہیں کریں گے تو اس عفرت پر قابو نہیں پایا جا سکے گا اور یہی اس صورت حال کا مثبت پہلو ہے۔

ڈاکٹر چیمہ نے کہا کہ انسانی نفسیات یہ ہے کہ جب خوف پیدا ہوتا ہے تو اسے نمٹنے کے لئے بھی انسان انتھک جدوجہد کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انسانی تاریخ میں ایسی وبائیں ہمیشہ ہی آتی رہی ہیں اور انسان نے اپنی ذہنی قوت اور حسن تدبیر سے اس کا مقابلہ کیا ہے اور اس بار بھی ایسا ہی ہو گا۔

سوشالوجی کے ایک ماہر اور پاکستان کی سرگودھا یونیورسٹی میں سماجیات کے شعبے کے ڈاکٹر غلام یاسین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انسانی معاشروں کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جب بھی اس نوعیت کے واقعات ہوتے ہیں تو لوگوں کے دلوں سے عناد اور دوسروں سے غیریت کا احساس کم ہو جاتا ہے اور ایک دوسرے سے اپنایت اور ہمدردی کا جذبہ بڑھتا ہے اور وہ اپنی سرحدوں سے آگے کے لوگوں کے بارے میں بھی سوچنے لگتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کرونا اب چینی وائرس نہیں رہا بلکہ تمام عالم انسانیت اور عالمی انسانی معاشرے کا مسئلہ بن گیا ہے۔ اب سارا عالم انسانیت اس سے نمبٹنے کے لئے مشترکہ کوششوں کی جانب جاتا نظر آتا ہے اور یہ ایک مثبت پیش رفت ہے۔

امریکہ میں پریکٹس کرنے والے ایک اور ماہر نفسیات ڈاکٹر اختر نقوی کا کہنا تھا کہ ابھی ماہرین اس وائرس کے بارے میں تمام حقائق سے آگاہ نہیں ہیں اس لئے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے جو چیز معلوم ہے، یعنی اس کے پھیلاؤ کو روکنے کی جو تدابیر ہیں یعنی کہ سماجی فاصلے یا social distancing وغیرہ پر زیادہ توجہ دی جائے اور اس پر عمل کیا جائے۔

آئندہ کیا ہو گا یہ کس کو معلوم ہے۔ لیکن یہ سب کو معلوم ہے کہ اس سے نمٹنے کے لئے عالی سطح پر مل جل کر کوششوں کی ضرورت ہے جس کے بغیر اس عفریت کو شکست نہیں دی جا سکتی۔

XS
SM
MD
LG