رسائی کے لنکس

کرونا 'لیب لیک' نظریے پر چین کا احتجاج، امریکہ پر معاملے کو سیاسی رنگ دینے کا الزام


کرونا وائرس سے متعلق ایک نمائش میں شریک بچہ چین کے صدر ژی جن پنگ کی تصویر کو دیکھ رہا ہے ۔ فائل فوٹو اے پی
کرونا وائرس سے متعلق ایک نمائش میں شریک بچہ چین کے صدر ژی جن پنگ کی تصویر کو دیکھ رہا ہے ۔ فائل فوٹو اے پی

چین نے ان میڈیا رپورٹس کو مسترد کر دیا ہے، جن میں کرونا وائرس کے کسی لیبارٹری سے لیک ہونے کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا۔ چین نے ایسی میڈیا رپورٹس کی وجہ سے امریکہ پر الزام عائد کیا ہے کہ واشنگٹن کرونا وائرس کی عالمی وبا کی ابتدا سے متعلق معاملے کو سیاسی رنگ دے رہا ہے اور امریکہ کو چین کے اندرونی معاملات میں مداخلت بند کرنی چاہئے۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کی ایک رپورٹ کے مطابق، یہ بات جمعے کے روز چینی خارجہ پالیسی کے ایک سینئیر مشیر یانگ جی ایچی اور امریکی خارجہ سیکرٹری اینٹنی بلنکن کے درمیان ٹیلی فون پر بات چیت کے بعد سامنے آئی ہے۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق، بات چیت کے دوران دونوں ممالک میں ہانگ کانگ میں آزادیوں کو محدود کرنے اور شمال مغربی چینی صوبے سنکیانگ میں ویغور مسلمانوں کو بڑے پیمانے پر حراست میں لیے جانے جیسے معاملات پر اختلاف رائے ابھر کر سامنے آیا۔

کرونا وائرس کی وبا کی ابتدا سے متعلق مزید تحقیقات کے مطالبات، چین کے لیے اس لیے باعث تشویش ہیں کہ پہلے ہی خیال کیا جاتا ہے کہ کرونا وائرس کی ابتدا چین میں ووہان میں واقع لیبارٹری سے لیک ہونے سے ہوئی ہے۔ ایسی رپورٹوں پر چین کی جانب سے سخت ردعمل دیکھنے میں آ رہا ہے۔

یانگ نے کہا کہ چین کو اس قسم کی بے ہودہ رپورٹس پر سخت تشویش ہے کہ وائرس ووہان کی لیبارٹری سے لیک ہوا۔

انہوں نے کہا کہ امریکہ میں کچھ لوگ ووہان لیب سے وائرس کے لیک ہونے جیسی جھوٹی اور بے ہودہ رپورٹس کو پھیلا رہے ہیں جس پر چین کو سخت تشویش ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ چین چاہتا ہے کہ امریکہ حقائق اور سائنس کا احترام کرے، کرونا وائرس کی ابتدا کو سیاسی رنگ دینے سے گریز کرے اور وبا کے خلاف بین الاقوامی کوششوں کی جانب توجہ دے۔

امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق اینٹنی بلنکن نے کرونا وائرس کی ابتدا سے متعلق تعاون اور شفافیت پر زور دیا، جس میں عالمی ادارہ صحت کی جانب سے ماہرین کی دوسری ٹیم کا چین جانا بھی شامل تھا۔

امریکہ اور دوسرے ممالک نے چین پر الزام لگایا ہے کہ وہ وائرس کی ابتدا سے متعلق تفتیش کے دوران خام ڈیٹا اور ان جگہوں تک رسائی دینے میں ناکام رہا ہے جن سے اس بارے میں مزید معلومات مل سکتی ہیں۔

برطانیہ میں کرونا کی ڈیلٹا قسم کے پھیلاؤ کے بعد پابندیوں میں توسیع

دوسری طرف بھارت میں پہلی دفعہ دریافت ہونے والی کرونا وائرس کی قسم ڈیلٹا وائرس کے برطانیہ میں پھیلنے کی وجہ سے برطانیہ نے لاک ڈاؤن کی پابندیوں میں نرمی مزید چار ہفتے کے لیے مؤخر کر دی۔

ایک پریس بریفنگ کے دوران وزیراعظم بورس جانسن نے اس بات پر اعتماد ظاہر کیا کہ انہیں سماجی فاصلے پر مبنی پابندیاں ہٹانے کو دوبارہ مؤخر کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

انہوں نے کہا کہ 10 جولائی تک برطانیہ کے دو تہائی افراد کو ویکسین کی دونوں خوراکیں مل چکی ہوں گی۔

پریس بریفنگ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’میرے خیال میں تھوڑا سا مزید انتظار کرنا زیادہ سمجھدارانہ فیصلہ ہو گا۔ ہمیں جلدبازی سے پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ اس طرح ہم اگلے چار ہفتوں میں لوگوں کو ویکسین دے کر ہزاروں مزید جانیں بچا سکتے ہیں۔‘‘

یاد رہے کہ بھارت میں پہلی بار دریافت ہونے والی کرونا وائرس کی قسم ڈیلٹا وائرس کے بارے میں سائنس دانوں نے خبردار کیا ہے کہ یہ کرونا وائرس کی پہلی قسم سے 40 سے 80 فیصد زیادہ تیزی سے پھیلتا ہے اور اس وقت ملک میں کرونا وائرس سے متاثر ہونے والے افراد میں 90 فیصد کا تعلق اس قسم سے ہے۔

نئی ویکیسن 'نووا ویکس' 90 فی صد تک مؤثر ہے

امریکی کمپنی نوواویکس نے پیر کے روز اعلان کیا ہے کہ اس کی تیار کردہ کرونا وائرس کی ویکسین وائرس کے خلاف 90 فیصد تک تحفظ دیتی ہے۔

کمپنی کے مطابق اس ویکسین پر امریکہ اور میکسیکو میں بڑے پیمانے پر تحقیق کی گئی اور ابتدائی ڈیٹا کے مطابق یہ ویکسین محفوظ پائی گئی ہے۔

نووا ویکس، کرونا وائرس کے خلاف 90 فی صد تک مؤثر ہے۔ 14 جون 2021
نووا ویکس، کرونا وائرس کے خلاف 90 فی صد تک مؤثر ہے۔ 14 جون 2021

خیال کیا جا رہا ہے کہ نوواویکس کی ویکسین جس کی ترسیل اور استعمال قدرے آسان ہے، کرونا وائرس کے خلاف عالمی کوششوں میں مددگار ثابت ہو گی۔

کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ رواں برس ستمبر تک امریکہ، یورپ اور دوسرے ممالک میں ویکسین کی منظوری کے بعد ہر مہینے 10 کروڑ خوراکیں بنانے کا ارادہ رکھتی ہے۔

کمپنی کے سی ای او کے مطابق ان میں سے زیادہ تر خوراکیں غریب یا کم آمدنی والے ممالک میں جائیں گی اور یہ ہی کمپنی کا ہدف تھا۔

یاد رہے کہ جہاں امریکہ میں آدھے سے زیادہ آبادی کو ویکسین مل چکی ہے وہیں یونی ورسٹی آف آکسفورڈ کے جانب سے مرتب شدہ اعداد و شمار کے مطابق اب تک ترقی پذیر ممالک کی 1 فیصد سے بھی کم آبادی کو ویکسین ملی ہے۔

XS
SM
MD
LG