پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں کرونا وائرس سے اب تک 600 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ اس وبا سے متاثرہ مریضوں کی تعداد 33 ہزار سے بڑھ چکی ہے۔
ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ کرونا وائرس کے سبب پیدا ہونے والی صورتِ حال میں پنجاب کے اسپتال کرونا وائرس سے نمٹ سکتے ہیں؟ حکومت کی طرف سے لاک ڈاؤن میں نرمی کیے جانے کے بعد کرونا وائرس کے مریضوں کی تعداد میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے۔
پنجاب کے سب سے بڑے شہر لاہور کو کرونا وائرس کا گڑھ سمجھا جا رہا ہے جہاں اس وائرس سے 14 ہزار سے زائد افراد متاثر ہو چکے ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صوبہ پنجاب کے بڑے ٹیچنگ اسپتالوں میں کرونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کے لیے جگہ کم پڑنے لگی ہے۔ صوبے کے آٹھ بڑے اسپتالوں کے 'ہائی ڈیپنڈنسی یونٹس' میں جگہ ختم ہو گئی ہے اور لاک ڈاؤن میں نرمی کے باعث صوبے بھر میں کرونا وائرس کے مریضوں میں تشویش ناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
صوبہ پنجاب کے 'اسپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر اینڈ میڈیکل ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ' کے مطابق پنجاب کے آٹھ بڑے اسپتالوں کے 'آئسولیشن وارڈز' میں بھی مزید مریضوں کے لیے جگہ نہیں ہے۔
تین جون تک کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق لاہور کے سروسز اسپتال، جناح اسپتال اور جنرل اسپتال میں کرونا وائرس کے مریضوں کے لیے مختص 'ہائی ڈیپنڈنسی یونٹس' میں جگہ ختم ہو گئی ہے۔
ڈیپارٹمنٹ کے مطابق راولپنڈی کے دو بڑے اسپتال بے نظیر بھٹو اسپتال اور ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال بھی تشویش ناک مریض داخل نہیں کر سکتے۔
پنجاب میں کرونا وائرس کے لیے آٹھ فیلڈ اسپتال بھی قائم کیے گئے ہیں۔
اسی طرح فیصل آباد کے الائیڈ اسپتال اور جنرل اسپتال، غلام محمد آباد کے ہائی ڈیپنڈنسی یونٹس میں بھی مریضوں کا رش ہے۔ سیالکوٹ کے علامہ اقبال ٹیچنگ اسپتال میں گنجائش کم پڑ گئی ہے۔
راولپنڈی کے ہولی فیملی اسپتال، بے نظیر بھٹو اسپتال، ڈی ایچ کیو اسپتال، لاہور کے سروسز اسپتال، جنرل اسپتال، بہاولپور کے بہاولپور وکٹوریہ اسپتال، فیصل آباد کے الائیڈ اسپتال اور جنرل اسپتال فیصل آباد میں کرونا وائرس کے وارڈز میں کرونا کے مریضوں کا رش ہے۔
تمام اسپتالوں کے آئسولیشن وارڈز میں بھی جگہ ختم ہو گئی ہے جس کے باعث اِن اسپتالوں میں نئے مریض داخل نہیں ہو سکتے۔
خیال رہے کہ ہائی ڈیپنڈنسی یونٹس میں انتہائی تشویش ناک حالت والے مریضوں کو رکھا جاتا ہے۔
وینٹی لیٹرز کی صورتِ حال
صوبہ پنجاب میں کرونا وائرس کے مریضوں کی تعداد میں تیزی سے اضافے کے باعث متعدد اضلاع کے سرکاری اسپتالوں میں جان بچانے کے لیے درکار وینٹی لیٹرز دستیاب نہ ہونے کا انکشاف بھی ہوا ہے۔
اسپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر اینڈ میڈیکل ایجوکیشن ڈییارٹمنٹ کی جانب سے جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق پنجاب میں کرونا وائرس کے مریضوں کے لیے مختص 142 اسپتالوں میں سے 113 اسپتالوں میں وینٹی لیٹرز موجود نہیں ہیں۔
صوبے کے چھ بڑے ٹیچنگ اسپتالوں میں بھی وینٹی لیٹر کی سہولت موجود نہیں ہے جبکہ پنجاب کے کسی بھی فیلڈ اسپتال میں وینٹی لیٹر موجود نہیں ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق صوبہ پنجاب کے جنوبی اضلاع وہاڑی، بہاولپور، رحیم یار خان اور ڈیرہ غازی خان کے کسی بھی تحصیل اسپتال میں کرونا وائرس کے مریضوں کے لیے وینٹی لیٹر موجود نہیں ہیں۔
صوبے کے وسطی اضلاع گوجرانوالہ، گجرات، سیالکوٹ، سرگودھا اور ساہیوال کے تحصیل اسپتال بھی وینٹی لیٹرز سے محروم ہیں۔
حکومت کی جانب سے لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد سے صوبہ بھر کے بازاروں میں لوگوں کو خریداری کے حوالے سے ہجوم دیکھنے میں آرہا ہے۔
وزیراعظم پاکستان عمران خان کے آبائی علاقے ضلع میانوالی کے تحصیل اسپتال میں بھی کرونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کے لیے ایک بھی وینٹی لیٹر موجود نہیں ہے۔
محکمے کی جانب سے جاری کیے گئے اعدادوشمار کے مطابق خانیوال، لودھراں اور ملتان کے تحصیل اسپتالوں میں صرف ایک ایک وینٹی لیٹر موجود ہے۔
پنجاب کے سرکاری اسپتالوں میں کرونا کے مریضوں کے لیے 382 وینٹی لیٹرز مختص ہیں جبکہ صوبے کے سرکاری اسپتالوں میں 72 مریض وینٹی لیٹر پر ہیں۔
بیڈز کی صورتِ حال
کرونا کے مریضوں کی تعداد میں تیزی سے ہونے والے اضافے کے باعث صوبے بھر میں کرونا وائرس کے مریضوں کے لیے مختص کیے گئے بستروں کی تعداد بھی کم پڑنے لگی ہے۔
پنجاب کے تحصیل اسپتالوں میں کرونا وائرس کے مریضوں کے لیے 2744 بستر مختص ہیں۔ صوبے کے آٹھ فیلڈ اسپتالوں میں 2002 بستر مختص کیے گئے ہیں۔
مریضوں کی صورتِ حال
حکومتی اعداد و شمار کے مطابق رواں ماہ چار جون کی دوپہر بارہ بجے تک پنجاب میں کرونا وائرس کے 1615 نئے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جس کے بعد صوبے بھر میں کرونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد 31104 ہو گئی ہے۔
رواں ماہ چار جون کو لاہور میں 724، ننکانہ صاحب 2، قصور 2، شیخوپورہ 11، راولپنڈی 153، گوجرانوالہ 32 اور سیالکوٹ میں 28 نئے کیسز سامنے آئے ہیں۔
ترجمان کے مطابق صوبے کے دیگر شہروں نارووال 1، گجرات 67، حافظ آباد 19، منڈی بہاؤ الدین 2، ملتان 181، خانیوال 4، وہاڑی 30، فیصل آباد 99، ٹوبہ ٹیک سنگھ 20، جھنگ 3، رحیم یار خان میں 21، سرگودھا 6، میانوالی 13، خوشاب 2، بھکر 21، بہاولنگر 18، بہاولپور 67، لودھراں 7، ڈیرہ غازی خان 55، مظفر گڑھ 28، راجن پور 2، لیہ 8، ساہیوال 3 اور اوکاڑہ میں 7 نئے مریضوں کا اضافہ ہوا ہے۔
اعدادوشمار کے مطابق صوبہ پنجاب میں کرونا وائرس سے اب تک اموات کی کل تعداد 607 ہو چکی ہے اور صوبہ بھر میں اب تک 2 لاکھ 59 ہزار سے زائد افراد کے ٹیسٹ کیے جا چکے ہیں۔ کرونا وائرس کو شکست دے کر سات ہزار سے زائد افراد صحت یاب بھی ہو چکے ہیں۔
پنجاب کی وزیرِ صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کہتی ہیں کہ سرکاری اسپتالوں میں کرونا وائرس کے مریضوں کے علاج معالجہ کے لیے وسائل کے بارے میں غلط اور بے بنیاد خبریں پھیلائی جا رہی ہیں جن میں کوئی صداقت نہیں ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا 'کابینہ کمیٹی برائے انسداد کرونا وائرس' کی جانب سے 'اسمارٹ سیمپلنگ' کی ہدایت کی گئی ہے۔ محکمہ پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر نے 'ٹیکنیکل ورکنگ گروپ' تشکیل دے کر اسمارٹ سیمپلنگ کا عمل شروع کر دیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر یاسمین راشد نے کہا کہ صوبہ پنجاب نے ملک بھر میں سب سے زیادہ کرونا وائرس کی 'کنٹیکٹ ٹریسنگ' کی ہے 90 ہزار 871 افراد کا سراغ لگایا گیا۔ کنٹیکٹ ٹریسنگ کے نتیجہ میں کرونا وائرس کے مزید 4 ہزار 887 مریضوں کا اضافہ ہوا ہے۔
ڈاکٹر یاسمین راشد کا کہنا تھا کہ اس وقت لاہور کے اسپتالوں میں بستروں کی تعداد 539 ہے۔ اسپتالوں میں شدید علامات یا کرونا وائرس کے کنفرم مریضوں کو ہی رکھا جا رہا ہے۔ اس وقت ان کے پاس 1450 وینٹی لیٹرز موجود ہیں
ان کے بقول جس شخص کا ٹیسٹ پازیٹو آئے گا۔ اُس کو آئسولیشن میں رکھیں گے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن بھی یہی کہتا ہے کہ علامات ظاہر ہونے پر ہی کسی بھی شخص کا ٹیسٹ کریں اور ٹیسٹ مثبت آنے پر ہی اُس کی کنٹیکٹ ٹریسنگ کریں۔
صوبہ پنجاب میں مجموعی طور پر اسپتالوں کی تعداد 249 ہے جن میں سے 'اسپیشیلائزڈ ہیلتھ کئیر اینڈ میڈیکل ایجوکیشن' اسپتالوں کی تعداد 46، پرائمری اینڈ اسکینڈری ہیلتھ کیئر اسپتالوں کی تعداد 142 ہے۔