پاکستان بھر میں گزشتہ ہفتے ٹیلی ہیلتھ پورٹل کا اجرا کیا گیا ہے جس کا مقصد مریضوں کو موبائل فونز کے ذریعے ڈاکٹروں تک مفت رسائی فراہم کرنا ہے۔ تاکہ وہ کرونا وائرس سے پیدا ہونے والی صورتِ حال میں محفوظ طریقے سے اپنا علاج کرا سکیں۔
اس مقصد کے لیے ایک واٹس ایپ نمبر بھی جاری کیا گیا ہے۔ مریض اس نمبر پر ڈاکٹروں سے رابطہ کر کے گھر بیٹھے اپنا علاج کرا سکے گا۔
ٹیلی ہیلتھ سروس کو مستقل بنیادوں پر چلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یعنی عالمی وبا ختم ہونے کے بعد بھی مریض اس سہولت سے استفادہ کر سکیں گے۔
اس سے قبل گھر بیٹھے تعلیم فراہم کرنے کے لیے ٹیلی ایجوکیشن نامی ایک منصوبہ بھی شروع کیا جا چکا ہے۔ بچوں کو گھر بیٹھے تعلیم دینے کا یہ منصوبہ پاکستان ٹیلی ویژن کی مدد سے شروع کیا گیا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ ٹیلی ہیلتھ پورٹل میں اب تک چار سے پانچ سو ڈاکٹرز رجسٹر ہو چکے ہیں۔ کوشش یہ کی جا رہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ خواتین ڈاکٹرز اور اسپیشلسٹ کو رجسٹر کیا جائے جو گھر بیٹھے مریضوں کو مفت مشورے دے کر ان کے علاج کا وسیلہ بنیں۔
یہ منصوبہ ان لوگوں کے لیے بھی مددگار ثابت ہو گا جو دور دراز علاقوں میں رہنے اور قریبی علاقے میں صحت کا کوئی مرکز نہ ہونے سے علاج سے محروم رہ جاتے ہیں۔
پاکستان میں ڈاکٹروں کی کمی
بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ پاکستان میں ڈاکٹروں کی کمی بھی شدت سے محسوس کی جا رہی ہے۔ وزارتِ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی معیار کے مطابق اس وقت پاکستان میں تقریباً چار لاکھ ڈاکٹر کم ہیں جب کہ ملک کو دو لاکھ ڈینٹسٹ اور تقریبا 16 لاکھ نرسز کی کمی کا بھی سامنا ہے۔
اس صورتِ حال میں نہ صرف دیہات، قصبوں اور چھوٹے شہروں میں ڈاکٹروں کی کمی ہے بلکہ کراچی، لاہور اور راولپنڈی جیسے بڑے شہروں کے سرکاری اسپتالوں میں بھی اسٹاف کی کمی کی شکایت عام ہے۔
ملک میں اس وقت رجسٹرڈ ڈاکٹرز کی تعداد دو لاکھ 22 ہزار 221 بتائی جاتی ہے۔ سب سے زیادہ تعداد پنجاب جب کہ سب سے کم ڈاکٹر بلوچستان میں رجسٹرڈ ہیں۔
عالمی معیار کے مطابق ہر ایک ہزار نفوس کے لیے ملک میں دو ڈاکٹرز، ایک دندان ساز اور آٹھ نرسز کا ہونا ضروری ہے۔ لیکن پاکستان میں یہ شرح عالمی معیار کی نسبت نصف سے بھی کم ہے۔
حکام کے مطابق ڈاکٹروں کی کمی کی اس صورتِ حال میں بھی ٹیلی ہیلتھ پورٹل کے اجرا اور اس کے استعمال سے بھرپور فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔
"زیادہ تر خواتین ڈاکٹر پریکٹس نہیں کرتیں"
پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کی جانب سے گزشتہ سال جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کے میڈیکل کالجز میں زیرِ تعلیم طلبہ میں 70 فی صد خواتین ہوتی ہیں۔ لیکن تعلیم مکمل کر کے رجسٹرڈ ہونے والی خواتین ڈاکٹرز کی تعداد محض 23 فی صد ہوتی ہے۔
اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ خواتین کی ایک بڑی تعداد میڈیکل کالجز اور جامعات سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد عملی میدان میں قدم رکھنے کے بجائے شادی کر کے گھریلو زندگی میں مگن ہو جاتی ہیں۔ ایسے میں حکومت کی جانب سے میڈیکل کالجز کو دی گئی بھاری سبسڈیز بھی ضائع ہو جاتی ہیں۔
اس نکتے کے حوالے سے بھی یہ کہا جا رہا ہے کہ آن لائن ہیلتھ سروسز یا ٹیلی میڈیسن کے فروغ سے وہ خواتین ڈاکٹرز بھی گھر بیٹھے اپنے پیشے سے وابستہ رہ سکیں گی۔
"پورٹل کا اجرا اچھا عمل مگر فائدے محدود ہوں گے"
پاکستان میں تقریباً 20 سال قبل ٹیلی میڈیسن متعارف کرانے والے ڈیجیٹل کیئر کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ڈاکٹر ذکی الدین احمد کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے ٹیلی ہیلتھ پورٹل کا اجرا یقیناً خوش آئند اور مثبت قدم ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ٹیلی میڈیسن کا طریقہ دنیا بھر میں دو عشروں سے زائد عرصے سے استعمال ہو رہا ہے۔ انفارمیشن اور کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کے استعمال سے ہیلتھ کیئر سسٹم میں جدت لائی جا رہی ہے۔
ڈاکٹر ذکی الدین کے مطابق ٹیلی میڈیسن کے فوائد اور افادیت کے باوجود بہت سی جگہوں پر یہ محدود بھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بہت سے امراض کا علاج ٹیلی میڈیسن سے کیا جا سکتا ہے اور اس کے فائدہ مند ہونے میں کوئی شک نہیں۔ لیکن پاکستانی معاشرے میں کئی مسائل ٹیلی میڈیسن کے فروغ کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔
ڈاکٹر ذکی الدین نے کہا کہ یہاں سب سے اہم مسئلہ شرحِ خواندگی کا ہے۔ چوں کہ ٹیلی میڈیسن کے دوران چاہے فون پر بات کرنی ہو یا ویب سائٹ کے ذریعے ڈاکٹر سے رابطہ کرنا ہو، اس میں انگریزی کا استعمال زیادہ ہے۔ لیکن تعلیم کی کمی کے باعث بہت سے لوگ اس سہولت سے پوری طرح استفادہ نہیں کر سکتے۔
البتہ واٹس ایپ سروس کے اجرا پر ڈاکٹر ذکی الدین نے اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو لوگ اسمارٹ فون استعمال کرنا جانتے ہیں، ان کے لیے واٹس ایپ استعمال کرتے ہوئے ٹیلی ہیلتھ پورٹل سے منسلک ہونا آسان ہو گا۔
ان کا کہنا تھا کہ واٹس ایپ کے ذریعے ویڈیو کالز بھی آسانی سے ممکن ہیں اور ساتھ ہی مختلف ٹیسٹس کی رپورٹس بھی معالج کے ساتھ بڑی آسانی سے شیئر کی جا سکتی ہیں۔
لیکن ایک اور مسئلہ انٹرنیٹ صارفین کی تعداد کا بھی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد کُل آبادی کا محض 22 فی صد ہے۔ یعنی چار کروڑ 46 لاکھ 10 ہزار صارفین انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں جن میں سے تین کروڑ 70 لاکھ یعنی 18 فی صد آبادی سوشل میڈیا بھی استعمال کرتی ہے۔
اب بھی پاکستان کی مجموعی آبادی کا 78 فی صد حصہ انٹرنیٹ استعمال نہیں کرتا جس کے باعث ٹیلی ہیلتھ پورٹل کے فوائد محدود طبقے کو ہی حاصل ہو سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ اب بھی ملک کے دور دراز علاقوں میں ایسے بہت سے قصبے اور دیہات ہیں جہاں انٹرنیٹ کی سہولت بہت کم یا نہ ہونے کے برابر ہے جس کی وجہ سے ان علاقوں میں رہائش پذیر افراد کو ہیلتھ پورٹل سے جوڑنا فی الحال ممکن نہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹیلی ہیلتھ پورٹل کی افادیت اپنی جگہ لیکن پاکستان میں اس کے پر اثر ہونے کے بارے میں رائے مختلف ہو سکتی ہے۔ اس سہولت کی پہنچ ہر عام آدمی تک پہنچانے کے لیے مزید بہتری کی گنجائش بہرحال موجود ہے۔