پاکستان کے مختلف شہروں اور صوبوں میں کانگووائرس سے مرنے والوں کی تعداد میں رفتہ رفتہ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ گزشتہ ہفتے کراچی میں ایک اور بلوچستان کے ضلع ژوب میں دو مریضوں کی ہلاکتوں نے دونوں صوبوں کے شہریوں کو اندیکھے خوف میں مبتلا کردیا ہے۔
گزشتہ ہفتے عزیز آباد کراچی کا رہائشی 24سالہ شخص محمد کاشف جو پیشے کے اعتبار سے قصاب تھا،دوران علاج دم توڑ گیا۔ ادھر بلوچستان کے ضلع ژوب میں بھی رواں ماہ اسی مرض میں مبتلا ہوکر دو کاشتکار ہلاک ہوگئے، جبکہ مزید دو لوگ اس مرض میں مبتلا ہیں۔
اس سے قبل جولائی کے وسط میں حیات آباد میڈیکل کمپلیکس پشاور میں بھی ایک شخص کانگو فیور سے ہلاک ہوگیا تھا، جس کے بعد پشاور میں کانگو فیور سے مرنے والوں کی تعداد مجموعی طور پر چھ ہوگئی ہے۔
ان خبروں نے ایک جانب وزارت صحت کے حکام کو انتہائی فکرمند کر دیا ہے، تو دوسری طرف ڈاکٹروں اور مرنے والوں کے اہل خانہ کو اندیکھے خدشے نے گھیر لیا ہے کہ کہیں دوسرے اہل خانہ کو بھی اس وائرس سے کوئی نقصان نہ پہنچے حالانکہ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ انہوں نے پوری احتیاطی تدابیر کے ساتھ مرنے والوں کی آخری رسومات ادا کرائی ہیں۔
ای ڈی او کراچی ڈاکٹر ظفر اعجاز نے میڈیا سے بات چیت کے دوران بتایا کہ کراچی کے رہائشی کاشف کو کام کے دوران کسی متاثرہ جانور سے کانگووائرس لگا تھا۔ اس حوالے سے تمام تفصیلات ایک مراسلے کے ذریعے سیکریٹری صحت اور وزارت صحت کے دیگر اعلیٰ حکام کو ارسال کردی گئی ہیں۔
عیدالاضحیٰ کے موقع پر اندیکھی فکر
حکام کے لئے سب سے زیادہ فکر یہ ہے کہ اگلے کچھ ہفتوں بعد عیدالاضحیٰ آرہی ہے اور اس موقع پر ملک بھر میں نہایت بڑے پیمانے پر جانوروں کی خرید و فروخت ہوتی ہے اور تقریباً ہر شخص کسی نہ کسی حوالے سے جانوروں کے کنٹریکٹ میں ضرور آتا ہے۔ لہذا، اگر سخت احتیاطی تدابیر نہ کی گئیں توکیا ہوگا؟
سنہ 2012ء میں بھی کانگو وائرس سے متاثر ہوکر تین افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ یہ تینوں افراد لائیو اسٹاک میں ملازمت کرتے تھے۔
ادھر بلوچستان کے ضلع ژوب کے ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر محمد شاہ نے دو کاشتکاروں کے مرنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ دونوں کانگو وائرس سے متاثرہ تھے۔ ان کے مطابق، اس مرض سے مجموعی طور پر چار افراد متاثر ہوئے تھے۔ ان چاروں کا تعلق دیہی علاقے کلی بلمپ سے تھا جو ژوب کے قریب واقع ہے۔ چار میں سے دو افراد 30 سالہ عبداللہ جان اور 60 سالہ تاوین خان ہلاک ہوگئے۔
مرنے والے افراد کے بلڈ ٹیسٹ سے مرض کی تصدیق ہوئی۔ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال ژوب کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ عبدالرحمٰن کا کہنا ہے کہ وائرس سے دوسرے لوگوں کو بچانے کے لئے جانوروں کو انجکشن لگادیئے گئے ہیں جبکہ مرنے والوں کے اہل خانہ کا بھی احتیاطی طور پر علاج جاری ہے۔
حیات آباد میڈیکل کمپلیکس پشاور کے حکام کے مطابق اسپتال میں زیر علاج رہنے والا وحید خان، افغان شہری تھا جسے دو روز قبل ہی علاج کی غر ض سے اسپتال لایا گیا تھا۔ لیکن، وہ جانبر نہ ہوسکا۔ اگرچہ اس کا بلڈ ٹیسٹ نہیں ہوسکتا تھا۔ تاہم، علامات سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ کانگو وائرس میں مبتلا تھا۔
ایچ ایم سی کے ترجمان ڈاکٹر ولی الرحمٰن کا کہنا ہے کہ سال بھر کے دوران بارہ افراد کو اسپتال لایا گیا، جو کانگووائرس سے متاثرہ تھے۔ ان میں سے چھ کا انتقال ہوگیا۔
ولی الرحمٰن کا کہنا ہے کہ اسپتال میں چار کمروں کو کانگور وائرس سے متاثرہ مریضوں کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے، جہاں ہر طرح کی احتیاط برتی جارہی ہیں تاکہ مرض کو پھیلنے سے بچایا جاسکے۔
کریمین ہیمریجک یا کانگو فیورکیا ہے؟
کانگو وائرس کا سائنسی نام ’کریمین ہیمریجک کانگو فیور‘ ہے جس کی 4 اقسام ہوتی ہیں۔ اگر کسی کو کانگو وائرس لگ جائے تو اس سے انفیکشن کے بعد جسم سے خون نکلنا شروع ہوجاتا ہے۔ خون بہنے کے سبب ہی مریض کی موت واقع ہو سکتی ہے۔
کانگو وائرس جانوروں کی کھال سے خون چوسنے والے’ٹکس‘ کے ذریعے پھیلاتا ہے۔ ماہرین صحت اور معالجین کا کہنا ہے کہ کانگو وائرس کے ٹکس (جراثیم یا ایک قسم کا کیڑا)مختلف جانوروں مثلاًبھیڑ، بکریوں، بکرے، گائے، بھینسوں اور اونٹ کی جلد پر پائے جاتے ہیں۔ ٹکس جانور کی کھال سے چپک کر اس کا خون چوستا رہتا ہے۔ لیکن، جیسے ہی کوئی انسان مثلاً چرواہے یا قصاب یا عام لوگ اس جانور سے کنٹریکٹ میں آتے ہیں یہ ٹکس انسانوں میں منتقل ہوجاتا ہے اور یوں کانگو وائرس جانور سے انسانوں اور ایک انسان سے دوسرے جانور میں منتقل ہوجاتا ہے۔
کانگو وائرس کا مریض تیز بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اسے سردرد، متلی، قے، بھوک میں کمی، نقاہت، کمزوری اور غنودگی، منہ میں چھالے، اورآنکھوں میں سوجن ہوجاتی ہے۔ تیز بخار سے جسم میں وائٹ سیلس کی تعداد انتہائی کم ہوجاتی ہے جس سے خون جمنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔ متاثرہ مریض کے جسم سے خون نکلنے لگتا ہے اورکچھ ہی عرصے میں اس کے پھیپھڑے تک متاثر ہوجاتے ہیں، جبکہ جگر اور گردے بھی کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور یوں مریض موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔