براعظم افریقہ کے ملک کانگو میں احتجاجی مظاہرے کے دوران مسلح افراد کی فائرنگ سے اقوام متحدہ کی امن فوج میں شامل پاکستان کے سات اہلکار زخمی ہو گئے ہیں۔
پاکستان کی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ’آئی ایس پی آر‘ نے منگل کو جاری کیے گئے بیان میں کہا ہے کہ ’’باغیوں کے ساتھ جھڑپ‘‘ میں زخمی ہونے والے فوجیوں کی حالت خطرے سے باہر ہے۔
’’پاکستان کے فوجی اقوام متحدہ کی طرف سے دیے گئے اختیارات کے تحت اپنی ذمہ داری والے علاقوں میں شہریوں کو تحفظ فراہم کر رہے تھے۔‘‘
اقوام متحدہ کی امن فوج میں شامل پاکستانی اہکاروں پر یہ حملہ پیر کو اُس وقت ہوا جب تقریباً 1,000 مظاہرین پر مشتمل مجمے نے کانگو کے ساؤتھ کیوو (South Kivu) صوبے میں اُن کے اڈے کا محاصرہ کر رکھا تھا۔ مشتعل مظاہرین کی جانب سے امن فوج پر پتھراؤ کی وجہ سے بھی کچھ اہلکار زخمی ہوئے۔
عالمی تنظیم کی 15 رکنی سلامتی کونسل نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کانگو کے اس مشرقی خطے میں سلامتی کی مسلسل خراب ہوتی صورت حال اور اس کے مقامی آبادی پر اثرات پر ایک مرتبہ پھر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
سلامتی کونسل نے کانگو کی حکومت پر حملے میں ملوث عناصر کو جلد از جلد انصاف کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا ہے۔
اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ احتجاجی مظاہرہ ’ایف ڈی ایل آر‘ باغی فورسز کے خلاف کیا جا رہا تھا اور مشتبہ طور پر ہجوم میں موجود مقامی مائی مائی ملیشیا کے اراکین نے عالمی تنظیم کی امن فوج کے اہلکاروں پر فائرنگ کی۔
کانگو میں آخری جنگ کا باضابطہ خاتمہ تقریباً 10 برس قبل ہوا لیکن ملک کے مشرقی حصے تاحال مسلح گروہوں کے درمیان لڑائی کے باعث شورش کا شکار ہیں۔
کانگو کے لیے اقوام متحدہ کا امن مشن دنیا بھر میں عالمی تنظیم کی بڑی تعیناتیوں میں سے ایک ہے، لیکن اس پر وقتاً فوقتاً شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ناکافی اقدامات کے الزامات کا سامنا رہتا ہے۔
کانگو میں تعینات امن فوج میں پاکستانی اہلکاروں کی تعداد 3,500 سے زائد بتائی جاتی ہے۔