امریکی صدارتی امیدواروں ہلری کلنٹن اور ڈونلڈ ٹرمپ کی ایک دوسرے پر تنقید کا سلسلہ جاری ہے اور دونوں نے جمعرات کو نیویارک میں عطیات جمع کرنے کے ایک سالانہ عشائیے میں بھی ایک دوسرے پر طنز کے نشتر چلائے۔
یہ عشائیہ الفریڈ ای اسمتھ میموریل فاؤنڈیشن کے لیے کیتھولک چیرٹی کی طرف سے ہر سال منعقد کیا جاتا ہے۔
اس 71ویں عشائیے میں دونوں صدارتی امیدوار بھی مدعو تھے جنہوں نے جدید امریکی تاریخ کے صدارتی مباحثوں میں سب سے زیادہ "شیطانی مباحثہ" تصور کیے جانے والے اپنے تیسرے مباحثے کے ایک روز بعد بھی ایک دوسرے پر لفظوں سے حملے جاری رکھے۔
تقریر کے لیے ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کو پہلے موقع دیا گیا جنہوں نے کہا کہ اس طرح کی تقریبات میں اپنے بارے میں مزاح سے آغاز کیا جاتا ہے۔
"کچھ لوگ سمجھتے ہیں یہ میرے لیے مشکل ہو گا لیکن سچ یہ ہے کہ میں دراصل بہت عاجز آدمی ہوں بہت عاجز اور یہ حقیقت ہے، بہت سے لوگ مجھے بتاتے ہیں کہ عاجزی میری سب سے بڑی خوبی ہے۔"
انھوں نے اس موقع پر ایک بار پھر ذرائع ابلاغ پر ان کے خلاف جانبداری برتنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا یہ سب کلنٹن کی مہم کی ٹیم کا حصہ ہیں۔
ان کی طرف سے ہلری کلنٹن پر کی جانے والی تنقید خاص طور پر اپنی حریف امیدوار کو "بدعنوان" قرار دینا، ایک موقع پر تقریب میں موجود لوگوں کے لیے سماں خراشی کا باعث بنی اور شرکا کی طرف سے اس پر ناگواری کا اظہار بھی کیا گیا۔
انھوں نے ہلری کلنٹن اور ان کی صدارتی مہم کے اہم ارکان کی ہیک ہونے والی ای میلز کا تذکرہ کرتے ہوئے خاص طور پر اس ای میل کا حوالہ دیا جس میں کیتھولک ارکان کا مذاق اڑایا گیا۔
ٹرمپ نے کہا کہ "ہمیں وکی لیکس سے بہت کچھ پتا چلا، مثال کے طور پر ہلری کا خیال ہے کہ لوگوں کو اس طرح سے دھوکہ دیا جائے کہ عوامی سطح پر ایک پالیسی ہو اور نجی طور پر دوسری۔ مثال کے طور پر جیسے آج شب وہ (کلنٹن) یہ ظاہر کر رہی ہیں کہ وہ کیتھولکس سے نفرت نہیں کرتیں۔"
اس بات پر نہ صرف تقریب میں موجود لوگ بلکہ ہلری کلنٹن اور ان کے ساتھ بیٹھے ہوئے نیویارک کے آرچ بشپ ٹموتھی ڈولن واضح طور پر بے چینی کا شکار نظر آئے۔
ٹرمپ کے بعد ہلری کلنٹن کو خطاب کا موقع ملا جنہوں نے اپنے اپنی صحت سے متعلق مزاح بکھیرنے کی کوشش کی۔
"یہ ایسی خاص تقریب ہے کہ میں نے اپنے آرام کے وقت میں سے کچھ وقت نکالا اور جیسے کہ آپ پہلے ہی سن چکے ہیں کہ اور یہ آپ کے خاص دعوت بھی ہے کیونکہ میں عموماً اس طرح کی تقاریر کے لیے بھاری معاوضہ لیتی ہوں۔"
انھوں نے ٹرمپ کی طرف سے صدارتی انتخاب کے نتائج کو مشروط طور پر قبول کرنے کے بیان پر انھیں مذاق اور تنقید کا نشانہ بنایا۔
"یہ بہت زبردست ہے کہ میں یہاں ڈونلڈ کے بعد آئی ہوں۔ میرا خیال ہے کہ ان (ٹرمپ) کے لیے پرامن انتقال اقتدار قابل قبول نہیں۔"
تاہم اپنی تقریر کے اختتام پر ان کا کہنا تھا کہ وہ اور ٹرمپ کچھ مشترک بھی تلاش کر سکتے ہیں۔
آخری مباحثے کے برعکس اس تقریب میں دونوں حریف امیدواروں نے ایک دوسرے سے مصافحہ بھی کیا۔