امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے کہاہے کہ افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں دہشت گردی کے خطرات کا تقاضا ہے کہ ان سے نمٹنے کے لیے انٹیلی جنیس کی فراہمی اور قانون کے نفاذ میں وسیع تر بین الاقوامی تعاون فراہم کیا جائے۔انہوں نے ان خیالات کا اظہار استنبول میں انسداد دہشت گردی کی عالمی کانفرنس کے موقع پر کیا۔
وزیر خارجہ کلنٹن کا کہناتھا کہ القاعدہ کا وہ مرکزی حصہ جس نے 2001ء میں امریکہ پر حملے کیے تھے، امکانی طور پر اپنی شکست کی راہ پر گامزن ہے، لیکن دہشت گردی کا فوری اور ناقابل تردید خطرہ بدستور موجود ہے کیونکہ دہشت گرد اب جغرافیائی لحاظ سے پہلے سے زیادہ متنوع شکل اختیار کرچکے ہیں۔
ان کا کہناتھا کہ اب دہشت گردوں کے پاس مالے، صومالیہ اور یمن کے علاقے موجود ہیں۔ وہ نائیجریا اور مغرب کو غیر مستحکم کرنے کےلیے اکثر حملے کررہے ہیں ۔ اور ترکی میں پی کے کے دہشت گردی اور تشدد کی اپنی طویل مہم بدستور جاری رکھے ہوئے ہے، جو اب تک ہزاروں افراد کی جانیں لے چکی ہے۔
ترکی کے دارالحکومت استنبول میں دہشت گردی کی روک تھام سے متعلق عالمی کانفرنس میں مز کلنٹن نے اس خطرے کے مقابلے کے لیے فوجی اور سویلین شعبوں میں زیادہ قریبی بین الاقوامی تعاون پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس خطرے سے نمٹنے کے لیے انٹیلی جینس کے تبادلے، قانون کا نفاذ ، سفارت کاری ، ترقیاتی پروگرام اور انسانی بھلائی کے کاموں میں تعاون کے استعمال سے مدد مل سکتی ہے۔
امریکی وزیر خارجہ نے شمالی افریقہ اور مشرق وسطی ٰ میں عوامی احتجاج کا ذکرکرتے ہوئے کہا کہ نفرت بھڑکا کر اور توڑ پھوڑ کے ذریعے ، جس کے بارے میں القاعدہ کا دعویٰ ہے کہ تبدیلی کا واحد یہی راستہ ہے، کی نسبت ان تحریکوں میں عام شہریوں کی جانب سے معاشی مواقعوں کو وسط دینے اور حکومت کو زیادہ ذمہ دار ٹہرانے کے مطالبوں سے انتہاپسندی کے نظریات پر شدید ضرب لگ رہی ہے۔
وزیر خارجہ کلنٹن کا کہناتھا کہ جب دہشت گردی کی روک تھام کی بات ہوتو ہمیشہ آمدنی کے ذرائع ہی اس کا سبب نہیں ہوتے۔ انہوں نے کہا کہ شہریوں کو تحفظ کی فراہمی کے لیے تشدد اور زیادتیوں کو جائزسجھنا غلط اور کوتاہ نظری ہے۔ کیونکہ انسانی حقوق کی خلاف وزریاں قانون کی حکمرانی کی اہمیت گھٹا دیتی ہیں اور انتہا پسندی کو پروان چڑھاتی ہیں۔
مز کلنٹن کا کہناتھا کہ واشنگٹن ہمیشہ القاعدہ جیسی تنظیموں کے خلاف طاقت کے استعمال کا اپنا حق محفوظ رکھے گا جنہوں نے امریکہ پر حملہ کیا تھا اور اب بھی وہ ایک خطرہ ہیں۔
لیکن ان کا یہ بھی کہناتھا کہ صدر براک اوباما نے یہ واضح کردیا ہے کہ ایسا کرنے کی صورت میں امریکہ تمام قوانین کا احترام ملحوظ رکھے گا جن میں جنگی قوانین بھی شامل ہیں۔ اور ان کے الفاظ میں وہ معصوم جانوں کا ضیاع روکنے کے لیے کسی بھی حد تک جائے گا۔