بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے گرمائی صدر مقام سرینگر میں سکیورٹی فورسز کے ساتھ ایک جھڑپ میں دو مبینہ عسکریت پسندوں اور ایک شہری کی ہلاکت کے بعد پُرتشدد مظاہرے پھوٹ پڑے ہیں۔
پولیس اور نیم فوجی دستوں نے کئی مقامات پر مظاہرین اور پتھراؤ کرنے والے نوجوانوں پر اشک آور گیس پھینکی اور چھرے والی بندوقیں استعمال کیں۔ جھڑپوں میں لگ بھگ 15 مظاہرین اور چند سکیورٹی اہلکار زخمی ہوئے۔
اس سے قبل بدھ کو علی الصباح مبینہ عسکریت پسندوں اور پولیس کے درمیان جھڑپ کے دوران ایک پولیس اہلکار بھی مارا گیا۔
سرینگر پولیس کے ایک ترجمان نے بتایا ہے کہ جھڑپ کا آغاز منگل اور بُدھ کی درمیانی شب اُس وقت ہوا جب سکیورٹی فورسز کے دستوں نے عسکریت پسندوں کی موجودگی کی اطلاع پر فتح کدل کے علاقے میں ایک مکان کو گھیرے میں لے لیا۔
ترجمان نے دعویٰ کیا کہ حکام نے محصور عسکریت پسندوں کو ہتھیار ڈال کر خود کو قانون کے حوالے کرنے کا موقع فراہم کیا تھا لیکن انہوں نے لڑنے کو ترجیح دی۔
جھڑپ کے دوراں سکیورٹی فورسز نے مکان کو بھاری اسلحہ استعمال کرکے تباہ کردیا جس سے چند ملحقہ مکانوں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔
مرنے والے دونوں مبینہ جنگجووں کی شناخت معراج الدین بنگرو اور فائد مشتاق وازہ کے نام سے ہوئی ہے جو کشمیر کے مقامی باشندے ہیں۔
پولیس نے بدھ کی شام کو جھڑپ کے دوران مارے گئے تیسرے مقامی نوجوان کی شناخت رئیس احمد کے طور پر کی اور کہا کہ اُس کے رول کی تحقیقات کی جا رہی ہے۔ پولیس کے ایک ترجمان نے کہا کہ "رئیس احمد، جو عسکریت پسندوں کو پناہ دینے اور ان کے نقل و حمل کو آسان بنانے والے گروپ میں شامل تھا، کی ساز باز کی تحقیقات کی جا رہی ہے"۔
جھڑپ کے بعد ہزاروں افراد سرینگر کے خان یار علاقے میں جمع ہوگئے جن کا کہنا ہے کہ وہ جھڑپ میں مرنے والے دونوں مقامی نوجوانوں کی میتیوں کا انتظار کر رہے ہیں۔
عینی شاہدین کے مطابق مظاہرین نے بھارت کے خلاف اور آزادی کے مطالبے کے حق میں نعرے بازی کی۔
جھڑپ کے بعد شہر میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پیشِ نظر حکام نے سرینگر میں اسکول اور کالج بند کر دیے ہیں۔ یونیورسٹی آف کشمیر کے سرینگر کیمپس میں تدریسی عمل روک دیا گیا ہے جب کہ انٹرنیٹ سروسز معطل ہیں۔
کشمیر پولیس کے سربراہ دِلباغ سنگھ نے صحافیوں سے گفتگو میں دعویٰ کیا ہے کہ ہلاک ہونے والا معراج الدین بنگرو کالعدم تنظیم لشکرِ طیبہ کا ایک اعلیٰ کمانڈر تھا جو اُن کے بقول دہشت گردی کے کئی واقعات میں ملوث تھا۔
جھڑپ میں ہلاک ہونے والے دوسرے نوجوان اٹھارہ سالہ فائد مشتاق کی والدہ میمونہ مشتاق نے بتایا ہے کہ ان کا بیٹا رواں سال مارچ میں گھر سے غائب ہوگیا تھا اور چند دن بعد پتہ چلا تھا کہ وہ عسکریت پسندوں کی صف میں شامل ہوگیا ہے۔
پولیس سربراہ نے بتایا ہے کہ جھڑپ کے دوراں ایک تیسرا نوجوان بھی مارا گیا جس کی شناخت کی جا رہی ہے۔ انہوں نے اور سرینگر کے سینئر سُپرنٹنڈنٹ آف پولیس امتیاز اسماعیل نے دعویٰ کیا ہے کہ ہلاک ہونے والی تیسرا شخص بھی "دہشت گرد" تھا۔
لیکن بعض مقامی افراد کا کہنا ہے کہ تیسرا نوجوان اُس گھر کے مالک کا بیٹا ہے جہاں جھڑپ ہوئی۔
جھڑپ کی کوریج کرنے والے کئی صحافیوں کو بھی بھارتی پولیس کے اسپیشل آپریشنز گروپ (ایس او جی) کے اہلکاروں نے مارا پیٹا۔
واقعے پر کشمیر کی صحافی انجمنوں نے احتجاج کیا ہے اور واقعے کی مذمت کرتے ہوئے اس میں ملوث اہلکاروں کے خلاف قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
استصواب رائے کا مطالبہ کرنے والے سرکردہ کشمیری رہنماؤں کے اتحاد 'مشترکہ مزاحمتی قیادت' نے جھڑپ کے دوران عسکریت پسندوں اور شہری کی ہلاکت کے سوگ اور احتجاج میں جمعرات کو کشمیر میں عام ہڑتال کی اپیل کی ہے۔