پاکستان کے صوبے پنجاب کے شہر سیالکوٹ میں شادی سے انکار پر جلائی جانے والی مسیحی برادری کی ایک نوجوان لڑکی دم توڑ گئی ہے۔
حکام کے مطابق عاصمہ نامی لڑکی کو مبینہ طور پر ایک مسلمان لڑکے نے گزشتہ ہفتے آگ لگادی تھی جس سے وہ بری طرح جھلس گئی تھی۔
عاصمہ کو تشویش ناک حالت میں پہلے سیالکوٹ کے اسپتال اور بعد ازاں ڈاکٹروں کے مشورہ پر پنجاب کے صوبائی دارلحکومت لاہور کے میو اسپتال کے برن یونٹ میں داخل کیا گیا تھا جہاں وہ تین روز زیرِ علاج رہنے کے باعث پیر کی صبح انتقال کر گئی۔
میو اسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر طاہر خلیل نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ عاصمہ کو جب میو اسپتال لایا گیا تو اُس کے جسم کا 80 فیصد حصہ جل چکا تھا۔
ان کے بقول، "عاصمہ کا چہرہ، گردن اور جسم کا نچلا حصہ بری طرح جل چکا تھا۔ جب کسی بھی مریض کے جسم کا اتنا حصہ جل جاتا ہے تو اسے بچانا مشکل ہوتا ہے۔"
عاصمہ کے والد یعقوب مسیح نے وائس آف امریکہ سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے الزام لگایا کہ رضوان نامی ملزم ان کی بیٹی کو پسند کرتا تھا اور اس سے شادی کرنا چاہتا تھا لیکن عاصمہ نے شادی سے انکار کردیا تھا۔
یعقوب مسیح کے مطابق ان کی بیٹی عاصمہ کسی کام کی غرض سے پڑوس میں گئی تھی جہاں سے واپسی پر رضوان نے ان کی بیٹی پر تیل چھڑک کر آگ لگا دی۔
مقتولہ کے والد کے بقول، "میری بیٹی نے رضوان کو بتادیا تھا کہ ان کا مذہب اور ہے اور وہ اس سے شادی نہیں کرنا چاہتی۔ جہاں اس کے والدین چاہیں گے وہ وہیں شادی کرے گی۔"
ملزم رضوان اور مقتول لڑکی سیالکوٹ کے علاقے محلہ مومن پورہ کے رہائشی ہیں۔ سیالکوٹ پولیس نے مسیحی لڑکی کو آگ لگانے والے نوجوان کو گرفتار کر لیا ہے جسے انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا جائے گا۔
سیالکوٹ پولیس اسٹیشن سول لائنز کے ایس ایچ او انسپکٹر شاہد نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ملزم نے اپنے اعترافی بیان میں یہ بات تسلیم کی ہے کہ عاصمہ کو اس نے آگ لگائی۔
انسپکٹر شاہد کے مطابق ملزم رضوان نے پولیس کو بتایا ہے کہ وہ صرف عاصمہ کو ڈرانا چاہتا تھا لیکن اسی دوران حادثاتی طور پر ماچس کی تیلی جلانے سے اسے آگ لگ گئی۔
پولیس کے مطابق ملزم محمد رضوان عاصمہ کو آگ لگانے کے بعد فرار ہو گیا تھا، جسے بعد ازاں گرفتار کرلیا گیا۔ ملزم کے خلاف انسدادِ دہشت گردی کے دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
پاکستان کے مختلف علاقوں میں پسند کی شادی سے متعلق ہونے والے تنازعات پر قتل اور تشدد کے واقعات اس سے قبل بھی تواتر سے پیش آتے رہے ہیں۔ ناقدین ان واقعات کا ذمہ دار فرسودہ اور قبائلی روایات، مناسب قانون سازی نہ ہونے اور پہلے سے موجود قوانین کے عدم نفاذ کو قرار دیتے ہیں۔