پاکستان میں حکام کے مطابق حالیہ بارشوں اور سیلاب سے چترال کے تین علاقوں وادی کیلاش، گرم چشمہ اور چترال بالا کا دیگر علاقوں سے زمین رابطہ منقطع ہے۔
صوبہ خیبر پختونخواہ میں آفات سے نمٹنے کے ادارے ’پی ڈی ایم اے‘ کے مطابق سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں دو لاکھ 85 ہزار افراد مقیم ہیں جن کا مرکزی چترال سے رابطہ بحال کرنا اس کی اولین ترجیح ہے۔
’پی ڈی ایم اے‘ کے اعداد و شمار کے مطابق وادی کیلاش میں 25 ہزار، گرم چشمہ میں 60 ہزار اور چترال بالا کے علاقوں مستوج، تورکو، بونی، یرخون اور ملکو میں بسنے والے دو لاکھ افراد کا دیگر علاقوں سے زمینی رابطہ نہیں ہے۔
حکام کے مطابق ان علاقوں میں سڑکیں اور پل بہہ جانے سے اُن کا مرکزی چترال سے زمینی رابطہ ٹوٹ گیا ہے۔
اُدھر وزیراعظم نواز شریف صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے بدھ کی صبح چترال پہنچے ہیں۔
چترال میں حالیہ بارشوں اور سیلاب سے سرکاری طور پر تین افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی ہے۔ حکام کے مطابق چترال میں تیس سے زائد پل بہہ گئے ہیں جب کہ بڑی تعداد میں گھروں اور کھڑی فصلوں کو بھی نقصان پہنچا۔
فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے بھی فوج کے تمام متعلقہ حکام کو ہدایت کی کہ وہ چترال اور ملک کے دیگر علاقوں میں سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے کی جانی والی کوششوں میں بھرپور کردار ادا کریں۔
اُدھر فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ’آئی ایس پی آر‘ سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق چترال میں بدھ کو مسلسل چھٹے دن بھی امدادی کارروائیاں جاری ہیں اور مقامی انتظامیہ کی مدد سے 16 ٹن راش تقسیم کیا جا چکا ہے۔
بیان کے مطابق سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں پھنسے 73 افراد کو نکالا جا چکا ہے، جبکہ میڈیکل کیمپس قائم کرنے کے لیے ڈاکٹروں اور طبی عملے کو بھی متاثرہ علاقوں میں بھیجا گیا ہے۔
اُدھر صوبہ پنجاب کے ضلع لیہ میں دریائے سندھ کے کنارے آباد درجنوں بستیاں زیر آب آ گئی ہیں۔
کور کمانڈر ملتان لفٹیننٹ جنرل اشفاق ندیم نے بدھ کو متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور بعد ازاں صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ سیلاب کی صورت پر مسلسل نظر رکھی جا رہی ہے۔
’’لوگوں سے بھی یہ کہنا چاہتا ہوں کہ عوام سول انتظامیہ اور فوج کی مدد کریں تاکہ نقصان کو ہم کم سے کم کر سکیں اور سول انتظامیہ جب وارننگ دیتی ہے کہ علاقہ خالی کر دیں تو ہماری (لوگوں سے) درخواست ہے کہ اُس میں ہماری مدد کریں۔۔۔۔۔۔ پہلے ہی 1500 سے زیادہ ہمارے لوگ تعینات ہونا شروع ہو گئے ہیں اور سیلاب کی صورت حال کو مانیٹر کر رہے ہیں۔‘‘
پنجاب کی صوبائی حکوم کی طرف سے دریاؤں کی گزر گاہوں کے قریب کچی بستیوں میں آباد افراد کو نکل جانے کا کہا گیا تاکہ ممکنہ بڑے سیلابی ریلے کی صورت میں جانی نقصان کم سے کم ہو۔