رسائی کے لنکس

چین: سنکیانگ میں پولیس فائرنگ سے درجنوں افراد ہلاک


فائل
فائل

حکام کے مطابق چاقووں اور برچھیوں سے لیس ایک ہجوم نے پیر کی صبح یارقند نامی علاقے کے قصبوں میں سرکاری املاک پر حملہ کیا تھا۔

چین کے مسلمان اکثریتی مغربی علاقے سنکیانگ میں پولیس نے دو قصبوں پر مبینہ طور پر حملہ کرنے والے درجنوں افراد کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے ۔

حکام کے مطابق چاقووں اور برچھیوں سے لیس ایک ہجوم نے پیر کی صبح یارقند نامی علاقے کے قصبے ایلکسکو کے سرکاری دفاتر اور پولیس اسٹیشن پر حملہ کیا تھا۔

پولیس کے مطابق ایلکسکو کے بعد بعض حملہ آور نزدیکی قصبے ہونگڈی پہنچ گئے تھے جہاں انہوں نے عام شہریوں پر حملے کرنے کے علاوہ چھ گاڑیوں کو آگ بھی لگادی تھی۔

چین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی 'شنہوا' کی جانب سے منگل کو جاری کی جانے والی ایک مختصر رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ جائے وقوعہ پر موجود پولیس اہلکاروں نے فائرنگ کرکے درجنوں حملہ آوروں کو موقع پر ہی ہلاک کردیا تھا۔

سرکاری خبر رساں ایجنسی کے مطابق ابتدائی تحقیقات سے ظاہر ہوا ہے کہ حملہ "منظم دہشت گردی کی ایک واردات تھا جس کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی تھی"۔

سرکاری رپورٹ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ حملے کی خبر ایک روز گزرنے کے بعد کیوں جاری کی گئی ہے۔ لیکن خیال رہے کہ چین کی حکومت صحافیوں کو سنکیانگ کے علاقے میں آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت نہیں دیتی اور علاقے کی خبریں سخت کانٹ چھانٹ کے بعد سرکاری نشریاتی ادارے ہی جاری کرتے ہیں۔

'شنہوا' کی رپورٹ کے مطابق پولیس فائرنگ سے ہلاک ہونے والوں میں مقامی ایغور نسل کے مسلمانوں کے علاوہ چین کی اکثریتی ہان نسل کے کئی افراد بھی شامل ہیں۔

حملے کا نشانہ بننے والا یارقند کا علاقہ – جسے چین میں ساشے کہا جاتا ہے – سنکیانگ کے جنوب مغرب میں واقع ہے جہاں ایغور مسلمانوں کی اکثریت ہے۔

ترکی النسل ایغور مسلمانوں کی سرزمین سنکیانگ میں گزشتہ کئی برسوں سے پرتشدد واقعات اور حملوں کا سلسلہ جاری ہے جن کا الزام چین کی حکومت ایغور علیحدگی پسندوں پر عائد کرتی ہے۔

چین کی کمیونسٹ حکومت کا دعویٰ ہے کہ ایغور مسلمان چین سے آزاد ہو کر 'مشرقی ترکستان' کے نام سے اپنی ایک علیحدہ مسلم ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں اور اس مقصد کے لیے جاری ان کی مسلح تحریک کو سنکیانگ سے متصل مسلمان ملکوں پاکستان اور افغانستان سے مدد ملتی ہے۔

سنکیانگ کے جلا وطن ایغور مسلمانوں کی تنظیمیں اور انسانی حقو ق کے اداروں کا الزام ہے کہ خطے میں جاری کشیدگی چینی حکومت کی جانب سے علاقے کے مسلمانوں اور اسلام کے خلاف معاندانہ پالیسیوں کا ردِ عمل ہے۔ لیکن بیجنگ حکومت اس الزام کی تردید کرتی ہے۔

امریکہ میں قائم تنظیم 'ورلڈ ایغور کانگریس' نے ہلاکتوں کے تازہ واقعات کے بعد چین کی حکومت سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی ہے۔

جلاوطن ایغور باشندوں کی تنظیم کی صدر رابعہ قدیر نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ تنظیم کو اندیشہ ہے کہ چین اس تازہ واقعے کی آڑ میں اپنی حاکمانہ پالیسیاں مزید سخت کردے گا جس کی قیمت سنکیانگ کے لوگوں کو اپنی آزادیوں سے مزید محرومی کی صورت میں چکانا پڑے گی۔

چین کی حکومت کے مطابق گزشتہ سال سے اب تک سنکیانگ میں پیش آنے والے پرتشدد واقعات اور حملوں میں 200 سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں جس کے بعد بیجنگ حکومت نے علاقے میں سخت کریک ڈاؤن شروع کررکھا ہے۔

XS
SM
MD
LG