چین اور امریکہ نے اکتوبر کے اوائل میں اعلیٰ سطح کے تجارتی مذاکرات شروع کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
یہ فیصلہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب دونوں ممالک کے درمیان جاری تجارتی جنگ کے باعث عالمی معاشی بحران کا سبب بننے کا خدشہ تھا۔
چین کی وزارت تجارت کی ویب سائٹ پر جمعرات کو جاری بیان کے مطابق چین کے نائب وزیراعظم لیو ہی اور امریکی تجارتی نمائندے رابٹ لائٹائزر اور امریکی سیکریٹری خزانہ اسٹیون منچین کے درمیان ہونے والی ٹیلی فونک گفتگو میں تجارتی مذاکرات شروع کرنے پر اتفاق کیا گیا۔
اس گفتگو میں چین کے مرکزی بینک کے گورنر یی گینگ بھی شامل تھے۔
چینی وزارت تجارت کا مزید کہنا ہے کہ فریقین نے اتفاق کیا ہے کہ وہ تجارتی تنازعات کے حل کے لیے مل کر کام کرنا چاہتے ہیں۔ جب کہ تجارت کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنے پر بھی اتفاق کیا گیا ہے۔
بیان کے مطابق دونوں ممالک کی تجارتی ٹیمیں اگلے ماہ اکتوبر میں اعلیٰ سطح کے مذاکرات سے قبل ستمبر کے وسط میں بات چیت کریں گی۔
دوسری جانب امریکی وزارت تجارت کے ترجمان نے بھی تصدیق کی ہے کہ لائٹائرز، منچن اور لیو ہی کے درمیان بات چیت ہوئی ہے اور ان کے درمیان اگلے چند ہفتوں میں واشنگٹن میں مذاکرات کرنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ واشنگٹن نے یکم ستمبر سے چینی درآمدات پر پندرہ فیصد محصولات عائد کرنا شروع کردیے ہیں۔ جبکہ چین نے بھی امریکی خام تیل پر نئی ڈیوٹی لگانا شروع کردی ہے۔
امریکہ کی طرف سے چینی درآمدات پر 15 فیصد محصولات عائد کرنے پر چین عالمی تجارتی تنظیم میں بھی شکایت درج کرا چکا ہے۔
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کو ایک ٹوئٹ میں چین کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ چین امریکہ کے ساتھ تجارتی معاہدہ جلد کرلے۔ اگر اُنہیں دوبارہ اقتدار ملا تو اپنے اگلے دور حکومت میں وہ چین کے لیے شرائط مزید سخت کریں گے۔
صدر ٹرمپ کا ٹوئٹ میں مزید کہنا تھا کہ چین امریکہ کی نئی حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنا چاہے گا۔ تاکہ وہ امریکہ کے 600 ارب ڈالر سالانہ پر ڈاکہ ڈالنے کا عمل جاری رکھ سکے۔
صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ابھی نیا صدر آنے میں 16 ماہ سے زیادہ وقت باقی ہے۔ جو بہت لمبا عرصہ ہوتا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر آئندہ انتخابات میں بھی وہ کامیاب ہو گئے تو پھر چین کا کیا ہوگا؟۔
خیال رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ سمجھتے ہیں کہ چین امریکہ کے ساتھ کوئی تجارتی معاہدہ کرنے میں اس لیے تاخیر کر رہا ہے۔ تاکہ چین ٹرمپ حکومت کی بجائے آئندہ انتخابات میں منتخب ہونے والی نئی حکومت سے مذاکرات کر کے اپنی شرائط منوا سکے۔
صدر ٹرمپ کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا تھا۔ جب دونوں ملکوں میں تجارتی جنگ عروج پر ہے اور دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کی برآمدی مصنوعات پر ٹیکس وصولی شروع کر دی ہے۔
امریکہ چین تجارتی تنازع
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صدارت کا منصب سنبھالنے کے بعد چین کے تجارتی ماڈل کو ناقابلِ قبول قرار دیا تھا۔
امریکہ یہ الزام عائد کرتا رہا ہے کہ چین تخلیقی جملہ حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنی مقامی کمپنیوں کو فائدہ پہنچاتا ہے۔
امریکہ کا یہ مؤقف رہا ہے کہ چینی مصنوعات امریکہ کی برآمدی مصنوعات سے زیادہ ہیں۔ لہٰذا چین کو اضافی ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔
چین امریکہ کے ان تحفظات کو مسترد کرتا ہے۔ چین کا مؤقف ہے کہ امریکہ کے ساتھ تجارت برابری کی بنیاد پر ہو گی۔
دونوں ممالک کے درمیان تجارتی مذاکرات کے متعدد دور ہو چکے ہیں۔ لیکن اب تک کوئی اتفاق رائے نہیں ہو سکا ہے۔