چین کی وزارت تجارت کا کہنا ہے کہ امریکہ کے ساتھ تجارتی مذاکرات خارج از امکان ہیں، کیونکہ امریکہ بامعنی مذاکرات کیلئے مخلص نہیں ہے۔ چین کی وزارت تجارت کا کہنا ہے کہ ’’ایسے حالات میں، اگر امریکی صدر ٹرمپ نے تجارتی تنازعے میں مزید شدت پیدا کرنے کی کوشش کی تو چین بھرپور جوابی کارروائی کرے گا‘‘۔
چین کے صدر شی نے منگل کے روز اعلان کیا تھا کہ چین اپنی معیشت کو پابندیوں سے آزاد کرتے ہوئے گاڑیوں سمیت متعدد درآمدات پر ڈیوٹی کم کر دے گا۔
اس اقدام کے بعد بعض حلقے اس توقع کا اظہار کر رہے تھے کہ اس سے چین۔امریکہ تجارتی کشیدگی کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔ صدر ٹرمپ نے اس اقدام کے جواب میں ایک ٹویٹ کے ذریعے کہا تھا کہ امریکی گاڑیوں کی چین کو برآمدات پر ڈیوٹی کم کرنے پر وہ چینی صدر شی کے شکر گزار ہیں۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ امریکہ اور چین ایک دوسرے کے ساتھ ملکر ترقی کریں گے۔
تاہم، چینی وزارتِ تجارت کے ترجمان گاؤ فینگ نے معمول کی پریس بریفنگ کے دوران کہا کہ چینی صدر شی کے بیان کا امریکہ کے ساتھ تجارتی محاذ آرائی سے کوئی تعلق نہیں ہے، اور اسے امریکہ کو کسی رعایت کی پیشکش کے تناظر میں نہیں دیکھا جانا چاہئیے۔
ترجمان نے اُمید ظاہر کی کہ امریکہ میں بعض لوگ اس کی غلط توجیح نہیں کریں گے۔ ترجمان نے واضح کیا کہ اگر امریکہ نے تجارتی کشیدگی کو مزید ہوا دی تو چین بھرپور جوابی کارروائی سے ہرگز نہیں ہچ پائے گا۔
امریکہ اور چین دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتیں ہیں اور انہوں نے حالیہ ہفتوں میں ایک دوسرے کے خلاف سیکڑوں ارب ڈالر کے محصولات عائد کرنے کی دھمکی دی تھی جس سے دونوں ملکوں کے درمیان شدید تجارتی جنگ چھڑنے کا خدشہ محسوس کیا جانے لگا تھا، جس کے عالمی معیشت اور تجارتی منڈیوں پر انتہائی منفی اثرات پڑ سکتے ہیں۔
بعض امریکی اہلکاروں اور تجزیہ کاروں نے اس اُمید کا اظہار کیا تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت کے ذریعے اس مسئلے کا حل تلاش کر لیا جائے گا۔ تاہم، بیجنگ نے آج جمعرات کے روز واضح کر دیا ہے کہ امریکہ اور چین کے درمیان کسی قسم کی رسمی بات چیت نہیں ہوئی ہے۔
چین کی وزارت تجارت کے ترجمان گاؤ فینگ نے کہا، ’’سوال یہ نہیں ہے کہ کیا چین امریکہ کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات پر آمادہ ہے یا نہیں۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اس بارے میں مخلص ہی نہیں ہے۔ ‘‘
چین کے معروف اخبار ’گلوبل ٹائمز‘ نے ایک تبصرے میں لکھا ہے کہ امریکہ کے پاس دو راستے ہیں۔ یا تو وہ چین کی طرف سے درآمدات پر پابندیاں نرم کرنے کے اقدام کا مخلصانہ طور پر جواب دے اور قابل اعتماد ماحول میں چین کے ساتھ مذاکرات کرے یا پھر اپنے ’غیر مناسب‘ مطالبات کے ساتھ چین پر دباؤ بڑھانا جاری رکھے اور تجارتی کشیدگی کو بڑھاتا رہے۔
امریکہ چین پر الزام عائد کرتا ہے کہ وہ امریکی کمپنیوں کو مشترکہ منصوبوں کیلئے مجبور کر کے امریکی ٹکنالوجی اور تجارتی راز چرا رہا ہے۔ تاہم، چین اس الزام کو مسترد کرتا ہے۔ صدر ٹرمپ نے پیر کے روز چین کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا تھا کہ وہ امریکہ سے درآمد ہونے والی گاڑیوں پر 25 فیصد ڈیوٹی عائد کرتا ہے جبکہ امریکہ چین سے درآمدات پر صرف 2.5 فیصد ڈیوٹی لگاتا ہے۔ ٹرمپ نے اسے احمقانہ تجارت سے موسوم کیا۔ تاہم، چین کی وزارت تجارت کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ’’عالمی تجارتی تنظیم WTO کے قوانین برابر محصولات پر زور نہیں دیتے۔ لہذا، امریکی مطالبہ ناجائز ہے‘‘۔
گاؤ فینگ نے کہا کہ ’’چین اپنی تجارتی منڈیوں کو خود اپنی پالیسیوں کے مطابق پابندیوں سے آزاد کرتا رہے گا‘‘۔