چین نے کہا ہے کہ وہ کوئٹہ سے اغوا کیے گئے اپنے دو شہریوں کی بازیابی کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کر ہر ممکن کوشش کرے۔
کوئٹہ سے بدھ کو ایک چینی جوڑے کو اغوا کر لیا گیا تھا، اطلاعات کے مطابق اغوا کاروں نے پولیس کی وردی پہن رکھی تھی۔
اس واقعہ کے بعد جمعرات کو چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان لو کانگ نے روزانہ کی نیوز بریفنگ میں کہا کہ بیرون ملک موجود چینی شہریوں کا تحفظ حکومت کی ترجیح ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ چینی حکومت اس معاملے پر پاکستان سے قریبی رابطے میں ہے اور ’’پاکستان پر زور دیا گیا ہے کہ وہ مغوی باشندوں کی جلد و بحفاظت بازیابی کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کرے۔‘‘
چین کی طرف سے پاکستان سے کہا گیا کہ وہ اپنے ملک موجود چینی شہریوں اور اداروں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے مزید اقدامات کرے۔
ترجمان نے کہا کہ مغوی افراد کی جلد بازیابی کے لیے چینی حکومت پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھے گی۔
چینی شہری، جو میاں بیوی تھے، وہ بلوچستان میں زبان سکھانے کے لیے ادارے سے وابستہ تھے۔
اطلاعات کے مطابق اغوا کار ایک گاڑی میں سوار دو خواتین سمیت تین چینی شہریوں کو اغوا کرنا چاہتے تھے لیکن قریب سے گزرنے والے ایک راہگیر کی مداخلت پر ایک چینی خاتون بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئی۔
اس دوران راہگیر زخمی ہو گیا۔
پاکستان کی سکیورٹی فورسز نے چینی شہریوں کی بازیابی کے لیے سرچ آپریشن شروع کر رکھا ہے۔
پاکستان میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے سینیٹر لفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان میں موجود چینی شہریوں کا تحفظ حکومت کی اولین ترجیح ہے۔
’’چین نے بالکل ٹھیک کہا ہے، بنیادی ذمہ داری پاکستان کی ہے۔ ہمارے ملک سے ایسے ہوا، ہم پوری کوشش کریں گے اور ان چیزوں کو کنٹرول کر لیا جائے گا۔۔۔ ابھی جو کچھ ہوا ہے، اُس کے پیچھے انٹیلی جنس ایجنسیاں سرگرم عمل ہیں اور جلد ہم اُن لوگوں تک پہنچیں گے جو یہ حرکات کر رہے ہیں۔‘‘
سینیٹر عبدالقیوم نے کہا کہ ملک میں پاک چین اقتصادی راہدری کے منصوبوں اور چینی شہریوں کے تحفظ کے لیے خصوصی سیکورٹی فورس تشکیل دی گئی ہے۔
’’اس کے لیے ایک اسپیشل سکیورٹی ڈویژن تیار ہے، اس کے لیے نگرانی کا طریقہ کار ہے، اسٹراٹییجک ٹیلی کمیونیکیشن ہے اور سب کو تحفظ فراہم کیا جائے گا۔‘‘
50 ارب ڈالر سے زائد مالیت کے پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت چین کے شہر کاشغر سے پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر تک مواصلات، بنیادی ڈھانچے، توانائی کے منصوبوں اور صنعتوں کا جال بچھایا جانا ہے۔ اس منصوبے کے تحت سڑکوں اور مواصلاتی ڈھانچے کا ایک بڑا حصہ صوبہ بلوچستان سے گزرے گا۔
پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کی طرف سے کہا جاتا رہا ہے کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جائیں گے اور اس مقصد کے لیے لگ بھگ 15 ہزار اہلکاروں مشتمل خصوصی فورس بھی تشکیل دی گئی ہے۔