چین نے مریخ کی تسخیر کے لیے اپنا پہلا خودمختار خلائی مشن جمعرات کی صبح روانہ کر دیا ہے جو سات ماہ میں کروڑوں کلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے فروری 2021 تک مریخ کے مدار میں پہنچے گا۔
دوسری جانب امریکہ بھی چند روز میں اپنا خلائی جہاز مریخ کی طرف روانہ کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔
ماہرین کے مطابق دونوں ملک مریخ اور زمین کے درمیان فاصلہ نسبتاً کم ہونے کے موقع سے فائدہ اُٹھانے کے ساتھ ساتھ خلائی تسخیر کے میدان میں بھی ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
چین کا تیان وین۔1 نامی خلائی جہاز جمعرات کی صبح لونگ مارچ۔5 نامی راکٹ کے ذریعے جزیرہ ہینان سے مریخ کی جانب روانہ ہوا۔
خیال رہے کہ رواں ہفتے سرخ سیارے کی طرف روانہ کیا گیا یہ دوسرا مشن ہے۔ متحدہ عرب امارات نے بھی پیر کو اپنا ایک خلائی مشن جاپان کے تنیگاشیما اسپیس سینٹر سے مریخ روانہ کیا تھا۔
امریکہ بھی آئندہ ہفتے جدید ٹیکنالوجی سے لیس خلائی مشن ریاست فلوریڈا سے مریخ بھیجنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
چینی حکام کے مطابق یہ مشن سات ماہ میں لگ بھگ ساڑھے پانچ کروڑ کلو میٹر کا سفر طے کر کے فروری 2021 تک مریخ کے مدار میں داخل ہو جائے گا۔
چینی مشن میں مریخ کے مدار میں چکر لگانے والا خلائی جہاز اور سیارے کی سطح پر اُترنے والی خلائی گاڑی (روور) شامل ہے جو مریخ کی سطح کے نیچے پانی اور زندگی کے امکانات کا جائزہ لے گا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ فروری میں مدار تک پہنچنے کے بعد اپریل یا مئی میں خلائی گاڑی مریخ کی سطح پر لینڈنگ کی کوشش کرے گی اور اگر سب ٹھیک رہا تو گالف کارٹ سائز کا 240 کلو گرام وزنی روور الگ ہو کر تین ماہ تک مریخ کی سطح پر موجود رہے گا۔
چین نے اس قبل روسی خلائی مشن کے ہمراہ 2011 میں اپنی خلائی گاڑی قازقستان سے سرخ سیارے کی جانب روانہ کی تھی۔ لیکن زمین کے مدار سے نکلنے میں ناکامی کے بعد یہ فضا میں ہی تباہ ہو کر تحلیل ہو گئی تھی۔
ماہرین کے مطابق مریخ میں لینڈنگ بہت مشکل ہے اور 1960 سے لے کر اب تک کئی ملکوں کے خلائی مشن ناکامی سے دو چار ہوتے رہے ہیں۔
لیکن امریکہ کے بعض خلائی مشن مریخ کی سطح پر کامیابی سے اُترنے کے علاوہ سرخ سیارے سے متعلق معلومات بھی فراہم کرتے رہے ہیں۔
اس وقت امریکہ کے تین، یورپ کے دو اور بھارت کی ایک خلائی گاڑی مریخ کے مدار میں سیارے سے متعلق معلومات کے لیے کوشاں ہے۔