واشنگٹن —
ایسا لگتا ہے کہ چین نےتبتیوں کے خلاف نگرانی کا کام تیزتر کر دیا ہے۔
آئی ٹی ’سروس پرووائڈرز ‘نے تبتیوں سے کہہ دیا ہے کہ وہ اپنے اصل نام فراہم کریں جب کہ اُن پر نظر رکھنے کے لیے کمیونسٹ پارٹی کے ہزاروں ارکان کو دیہات بھیجا جارہا ہے۔
سرکاری خبر رساں ادارے، شنہوا نے بدھ کے روز خبر دی ہے کہ تبت کے نیم خود مختار علاقے کی حکومت نے اپنی عملداری میں انٹرنیٹ صارفین، لینڈ لائن اور موبائل فون استعمال کرنے والوں کے اصل نام درج کر لیے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تبت کے ٹیلی فون استعمال کرنے والے 28لاکھ اور 15لاکھ انٹرنیٹ صارفین نے 2012ء کے ختم ہونے سے پہلے پہلے علاقائی قانون کی رو سے رجسٹریشن کا لازمی عمل مکمل کر لیا ہے۔
شنہوا نےعلاقائی عہدے دار، دائی جیان گئو کے حوالے سے کہا ہے کہ چین کی طرف سے تبت کے ٹیلی فون اور انٹرنیٹ صارفین پر نگرانی کو اِس لیے ضروری جانا تاکہ ’آن لائن افواہوں، فحاشی اور دھوکہ دہی پر مبنی پیغامات کے بڑھتے ہوئے معاملات روکے جاسکیں‘۔
تاہم، انسانی حقوق سے متعلق سرگرم کارکنوں نے چین پر الزام لگایا ہے کہ ایک مخصوص نسلی گروپ جسے وہ اپنی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتا ہے، تبتیوں کے خلاف حالیہ برسوں کے دوران نگرانی کے عمل کو وسیع تر کر دیا گیا ہے۔
نیو یارک میں قائم ’ہیومن رائٹس واچ‘ نے بدھ کے روز کہا کہ چین نے کمیونسٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والے 20000سے زائد ارکان کو تبت کے دیہات روانہ کیا ہے تاکہ لوگوں پر باریک بینی سے جاسوسی کی جاسکے، لوگوں کی از سر نو سیاسی تربیت کی جائے، اور سلامتی سے متعلق جانبدارانہ طرز کے یونٹ قائم کیے جائیں۔
چین کے بارے میں گروپ کی سربراہ اعلیٰ، سوفی رچرڈسن نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ اس طرز کی کارروائیاں اُن روایات سے میل نہیں کھاتیں جن طور طریقوں سے تبتی آشنا ہیں، جب کہ چین نے مروجہ معیار کو تبدیل کرنے کے لیے 2011ء میں ایک پروگرام کا آغاز کیا۔
چین کا کہنا ہے کہ تبت کے علاقے میں بڑے پیمانے پر بنیادی سہولتیں فراہم کرکے، حالیہ برسوں کے دوران تبتی باشندوں کے معیار زندگی کو کافی حد تک بہتر کیا گیا ہے۔
آئی ٹی ’سروس پرووائڈرز ‘نے تبتیوں سے کہہ دیا ہے کہ وہ اپنے اصل نام فراہم کریں جب کہ اُن پر نظر رکھنے کے لیے کمیونسٹ پارٹی کے ہزاروں ارکان کو دیہات بھیجا جارہا ہے۔
سرکاری خبر رساں ادارے، شنہوا نے بدھ کے روز خبر دی ہے کہ تبت کے نیم خود مختار علاقے کی حکومت نے اپنی عملداری میں انٹرنیٹ صارفین، لینڈ لائن اور موبائل فون استعمال کرنے والوں کے اصل نام درج کر لیے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تبت کے ٹیلی فون استعمال کرنے والے 28لاکھ اور 15لاکھ انٹرنیٹ صارفین نے 2012ء کے ختم ہونے سے پہلے پہلے علاقائی قانون کی رو سے رجسٹریشن کا لازمی عمل مکمل کر لیا ہے۔
شنہوا نےعلاقائی عہدے دار، دائی جیان گئو کے حوالے سے کہا ہے کہ چین کی طرف سے تبت کے ٹیلی فون اور انٹرنیٹ صارفین پر نگرانی کو اِس لیے ضروری جانا تاکہ ’آن لائن افواہوں، فحاشی اور دھوکہ دہی پر مبنی پیغامات کے بڑھتے ہوئے معاملات روکے جاسکیں‘۔
تاہم، انسانی حقوق سے متعلق سرگرم کارکنوں نے چین پر الزام لگایا ہے کہ ایک مخصوص نسلی گروپ جسے وہ اپنی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتا ہے، تبتیوں کے خلاف حالیہ برسوں کے دوران نگرانی کے عمل کو وسیع تر کر دیا گیا ہے۔
نیو یارک میں قائم ’ہیومن رائٹس واچ‘ نے بدھ کے روز کہا کہ چین نے کمیونسٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والے 20000سے زائد ارکان کو تبت کے دیہات روانہ کیا ہے تاکہ لوگوں پر باریک بینی سے جاسوسی کی جاسکے، لوگوں کی از سر نو سیاسی تربیت کی جائے، اور سلامتی سے متعلق جانبدارانہ طرز کے یونٹ قائم کیے جائیں۔
چین کے بارے میں گروپ کی سربراہ اعلیٰ، سوفی رچرڈسن نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ اس طرز کی کارروائیاں اُن روایات سے میل نہیں کھاتیں جن طور طریقوں سے تبتی آشنا ہیں، جب کہ چین نے مروجہ معیار کو تبدیل کرنے کے لیے 2011ء میں ایک پروگرام کا آغاز کیا۔
چین کا کہنا ہے کہ تبت کے علاقے میں بڑے پیمانے پر بنیادی سہولتیں فراہم کرکے، حالیہ برسوں کے دوران تبتی باشندوں کے معیار زندگی کو کافی حد تک بہتر کیا گیا ہے۔