چین نے ایک بار پھر برطانیہ کے نشریاتی ادارے بی بی سی کی حالیہ رپورٹنگ پر شکایت کی ہے۔ اس سے قبل حکام نے چین میں تعینات برطانوی سفیر کو بلا کر پریس کی آزادی کے دفاع میں تحریر کئے گئے اُن کے ایک مضمون پر ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔
خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق، لندن میں چین کے سفارت خانے نے اپنی ویب سائٹ پر، جمعرات کے روز ایک بیان جاری کیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ اس نے بی بی سی کو ایک خط تحریر کیا ہے جس میں اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ وہ طرفداری سے باز آئے، اپنی غلطیوں کو درست کرے اور چین کے بارے میں غیر جانبدارانہ، شفاف اور متوازن انداز میں بات کرے۔
منگل کے روز برطانوی سفیر کیرولین ولسن نے اپنے سفارتخانے کی ویب سائٹ پر ایک مائیکرو بلاگ میں لکھا تھا کہ چین کے بارے میں ناقدانہ رپورٹنگ، چین کے خلاف بطور ملک نفرت یا عدم احترام کا اظہار نہیں ہے، جس پر چین کی وزارتِ خارجہ نے انہیں طلب کر کے احتجاج کیا۔ بدھ کے روز چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان چاؤ لیجیان نے کہا کہ سفیر ولسن کا مضمون اُن کے "گہرے نظریاتی تعصبات کا عکاس ہے"۔
اے پی کے مطابق، چین کی حالیہ تنقید اس اندرونی اشتعال کو ظاہر کرتی ہے ، جو اسے بی بی سی کی حساس موضوعات پر رپورٹنگ سے ہے، ان میں کرونا وائرس کا پھیلاو، صوبے سنکیانگ میں مسلمان اقلیت پر جبر اور برطانیہ کی جانب سے ہانگ کانگ کے لاکھوں مکینوں کے لیے برطانیہ میں قیام اور پھر امکانی شہریت کے لیے دروازے کھولنے جیسے فیصلوں پر رپورٹنگ شامل ہے۔
گزشتہ ماہ چین نے چند ہوٹلوں، رہائشی احاطوں اور دفاتر میں بی بی سی کے دکھائے جانے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ یہ پابندی، برطانیہ کے خبر رساں اداروں کی چین پر ناقدانہ رپورٹنگ اور برطانیہ کی جانب سے چین کے سرکاری تحویل میں چلنے والے نشریاتی ادارے CGTN پر پابندی کے ردِ عمل میں سامنے آئی۔
برطانیہ سابق برطانوی نو آبادی ہانگ کانگ میں شہری آزادیوں کے خلاف چین کے کریک ڈاون کی مذمت کرتا ہے۔ ہانگ کانگ میں گزشتہ سال نافذ کئے جانے والے نیشنل سیکیورٹی قانون اور چینی حکومت کی جانب سے خود پر معمولی تنقید کرنے والوں کے کسی عوامی عہدے پر انتخاب لڑنے پر پابندی عائد کرنے کے بعد شہری آزادیوں کے مطالبات میں شدت آگئی ہے۔
برطانیہ میں چین کے سفارت خانے نے اپنے خط میں BBC 4 کی "دی ڈس انفارمیشن ڈریگن" نامی ایک رپورٹ کے بارے میں تنقید کی ہے جسے منگل کے روز نشر کیا گیا۔ خط میں کہا گیا ہے کہ اس رپورٹ میں چین کے خلاف دیگر موضوعات کے علاوہ انفارمیشن، کووڈ 19 اور سفارت کاری سے متعلق بے بنیاد الزامات عائد کئے گئے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ چین نے کبھی اشتعال انگیزی کی شروعات نہیں کی اور نہ ہی کسی ملک کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کی ہے، لیکن دوسرے ممالک چین کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کرتے رہتے ہیں اور اس پر گندگی اچھالتے رہتے ہیں۔
چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان چاؤ نے برطانوی سفیر کیرولین ولسن کے مضمون پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ چین نے ہمیشہ سفیر صاحبہ کو متعلقہ معاملات پر اپنے باضابطہ موقف سے آگاہ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سفیر ولسن کا مضمون منطق سے بالاتر اور حقائق کے منافی ہے جس میں برطانوی میڈیا کی چین کے خلاف غلط انفارمیشن اور رپورٹنگ بھی شامل ہے۔
برطانوی سفیر کیرولین ولسن نے ٹویٹر پر اس تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے مضمون کے مندرجات پر پوری طرح قائم ہیں اور ان سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹ رہیں۔ انہوں نے کہا اس میں شک نہیں کہ برطانیہ سے رخصت ہونے والے چین کے سفیر بھی اپنے اُن 170 مضامین کے مندرجات سے پوری طرح متفق ہوں گے جو انہوں نے برطانیہ کے بڑے میڈیا اداروں میں آزادی سے شائع کئے۔