امریکہ کے بڑے شہروں میں گزشتہ سال، ایشیائی امریکیوں کے خلاف نفرت پر مبنی جرائم میں اضافہ ہوا ہے۔ محکمہ پولیس کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق، بعض مقامات پر ایسے جرائم میں دُگنا بلکہ تِین گنا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ تاہم مجموعی طور پر نفرت پر مبنی جرائم میں کمی ہوئی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سال بھی اِن جرائم میں اضافے کا رجحان جاری ہے۔
امریکی سینسز بیورو کے مطابق ایشیائی امریکیوں سے مراد ایشیائی ملکوں، چین، فلپائن، ویتنام، کوریا، جاپان، جنوبی ایشیا، اور دیگر ایشیائی ملکوں سے آکر امریکہ میں آباد ہونے والے باشندے ہیں۔
کیلیفورنیا سٹیٹ یونیورسٹی کے سینٹر فار سٹڈی آف ہیٹ اینڈ ایکسٹریم ازم کے مرتب کردہ ڈیٹا کے مطابق، امریکہ کے سب سے زیادہ آبادی والے 16 شہروں میں، سن 2020 کے دوران ایشیائی امریکیوں کے خلاف نفرت پر مبنی 122 واقعات رونما ہوئے۔ اِن اعداد میں گزشتہ سال یعنی 2019 کی نسبت 150 گنا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ یہ ڈیٹا وائس آف امریکہ کے ساتھ شیئر کیا گیا۔ وی او اے نے خود بھی آزادانہ طور پر دو شہروں سے ڈیٹا اکٹھا کیا۔
ایشیائی امریکیوں کے حقوق کیلئے کام کرنے والے سرگرم کارکنوں نے ان غیر معمولی واقعات کا سبب بظاہر سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تقاریراور بیانات کو ٹھہرایا ہے، جس میں انہوں نے کرونا وائرس کے مہلک پھیلاؤ کا ذمہ دار چین کو قرار دیا تھا۔ تاہم زیادہ وسیع پیمانے پر عام امریکیوں نے وائرس کے سبب پہنچنے والے معاشی اور سماجی اثرات پر مشتعل ہو کر اپنے ایشیائی امریکی شناخت والے ہم وطنوں سے نفرت کا اظہار کیا۔
ایشین امیریکن بار ایسوسی ایشن آف نیو یارک کے بورڈ ممبرکرِس کواک کا کہنا ہے کہ اُن کے نزدیک گزشتہ سیاسی قیادت کے بعض بیانات نے ایشیائی نقوش کے حامل باشندوں کو ہدف بنا کر رکھ دیا۔
امریکہ کے سب سے بڑے شہر نیو یارک میں نفرت پر مبنی جرائم کا ارتکاب ہوا، جہاں ایشیائی امریکیوں کی اچھی خاصی تعداد آباد ہے۔ نیو یارک میں پولیس نے 28 واقعات کی چھان بین کی، جبکہ سن 2019 میں ایسے 9 واقعات رپورٹ ہوئے تھے۔
امریکہ کے دیگر چار بڑے شہروں میں فلاڈیلفیا، کلیو لینڈ، سین ہوزے اور لاس اینجلس شامل ہیں۔ سین ہوزے میں 2019 میں 4 کے مقابلے میں 10، اور لاس اینجلس میں 7 کے مقابلے میں 14 نفرت پر مبنی جرائم کا ارتکاب ہوا۔
نفرت اور شدت پسندی پر تحقیق کرنے والے ادارے ہیٹ اینڈ ایکسٹریم اِزم ریسرچ سینٹر کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر برائن لیوِن کا کہنا ہے کہ مجموعی طور پر پورے امریکہ میں نفرت پر مبنی جرائم میں کمی ہوئی ہے، لیکن ایشیائی امریکیوں کے خلاف زیادہ تر شہروں میں نفرت پر مبنی واقعات میں اضافہ ہوا، اور صرف دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی واحد شہر ہے جہاں ایشیائی افراد کے خلاف جرائم میں کمی ہوئی ہے۔
فیڈرل بیورو آف اِنویسٹی گیشن یعنی ایف بی آئی نفرت پر مبنی جرائم کی تعریف کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ ایک ایسا جرم ہے جس کے پیچھے نسل، مذہب، جنسی رجحان، اور دیگر عناصر کار فرما ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر زد و کوب کرنا یا لوٹ مار کرنا۔
ہر سال نومبر میں ایف بی آئی گزشتہ سال کا نفرت پر مبنی جرائم کا ڈیٹا جاری کرتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ پولیس کے چند اداروں کی جانب سے جاری کردہ ڈیٹا، گزشتہ سال ہونے والے ہیٹ کرائمز کی ایک ابتدائی شکل دکھاتا ہے.
کرس لیون کاکہنا ہے کہ ان اعدادو شمار سے ، جو مختصر تعداد میں اکٹھے کئے نمونوں کی روشنی میں مرتب کئے گئے ہیں ،پتا چلتا ہے کہ سن 2020 ، موجودہ صدی کے دوران ایشیائی آبادی کے خلاف نفرت پر مبنی جرائم کے لحاظ سے بدترین سال قرار دیا جاتا رہے گا۔
متعدد ایشیائی امریکی گروپوں کے اشتراک سے قائم کردہ سٹاپ اے اے پی آئی ہیٹ نامی گروپ نے سن 2020 میں مارچ سے لیکر دسمبر تک ایشیائی امریکیوں کے خلاف نسل پرستی رویے کے 2800 واقعات ریکارڈ کئے۔ 90 فیصد واقعات زبانی بدکلامی، دشنام طرازی اور متعصبانہ رویے کے تھے، جب کہ جسمانی تشدد کے تقریبا 9 فیصد واقعات پیش آئے۔
اس تعصب کا شکار ہونے والے بہت سے افراد چینی النسل امریکی نہیں تھے بلکہ ان جیسی شباہت رکھتے تھے، اور جنہیں غلطی سے چین کا باشندہ سمجھ لیا گیا۔
ایشین امریکن بار ایسوسی ایشن آف نیو یارک کے بورڈ ممبرکرِس کواک کا کہنا ہے کہ چینیوں جیسے شکل و شباہت رکھنے والے مشرقی ایشیائی افراد اب تک اِن تجربات سے گزر رہے ہیں، اور یہ سلسلہ اس ملک میں ایشیائی مخالف رویوں کی ایک لمبی تاریخ سے جڑتا ہے۔
سینٹر فار سٹڈی آف ہیٹ اینڈ ایکسٹریم اِزم کی تحقیق کے مطابق، اسی دوران امریکہ کے 15 بڑے شہروں میں گزشتہ سال نفرت پر مبنی جرائم کے ارتکاب میں مجموعی طور پر 7 فیصد کمی آئی ہے۔ مثال کے طور پر نیو یارک شہر میں پولیس نے گزشتہ سال نفرت پر مبنی 428 جرائم کے مقابلے میں اس سال 265 واقعات کی تفتیش کی ہے۔