واشنگٹن —
چین میں حکام نے گزشتہ ماہ سنکیانگ صوبے میں ایک ریلوے اسٹیشن پر مسافروں کو چاقووں کا نشانہ بنانے کے الزام میں سات افراد کو گرفتار کرلیا ہے۔
چین کے سرکاری اخبار 'گلوبل ٹائمز' نے ہفتے کو ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ تمام ساتوں افراد کو 14 مئی کو سنکیانگ سے حراست میں لیا گیا جن سے تفتیش کی جارہی ہے۔
خیال رہے کہ تیس اپریل کو سنکیانگ کے درالحکومت ارمچی کے ایک ریلوے اسٹیشن پر دھماکے اور چاقووں کے وار کے نتیجے میں ایک شخص ہلاک اور 79 زخمی ہوگئے تھے۔
حملے کے دوران پولیس کی جوابی کارروائی میں دو حملہ آور مارے گئے تھے جب کہ ان کے دیگر ساتھی فرار ہوگئے تھے۔
یہ حملہ ایسے وقت میں کیا گیا تھا جب چین کے صدر ژی جن پنگ سنکیانگ کے دورے پر تھے جس کے دوران انہوں نے علیحدگی پسندوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا عزم ظاہر کیا تھا۔
چین کی حکومت نے سنکیانگ میں حالیہ مہینوں کے دوران ہونے والی دہشت گردی کی کئی غیر معمولی وارداتوں کا الزام ایغور نسل کے مسلمان علیحدگی پسندوں پر عائد کیا ہے۔
سنکیانگ میں ایغور نسل کے مسلمانوں کی اکثریت ہے جو چینی حکومت پر مذہب اور نسل کی بنیاد پر امتیازی سلوک روا رکھنے کا الزام عائد کرتے ہیں۔
چینی حکومت نے حالیہ وارداتوں کا الزام بھی ماضی کی طرح ایغور علیحدگی پسندوں کی گوریلا تنظیم 'ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ' پر عائد کیا ہے جو سنکیانگ کی چین سے آزادی کی مسلح جدوجہد کر رہی ہے۔
چینی حکومت کا الزام ہے کہ اس تنظیم کو غیر ملکی شدت پسندوں کی مدد اور مالی معاونت بھی حاصل ہے۔
لیکن چین کے ناقدین کا موقف ہے کہ مسلمان علیحدگی پسندوں کی تحریک اتنی موثر نہیں جتنی چینی حکومت دعویٰ کرتی ہے اور چین خطے میں سکیورٹی سے متعلق خدشات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے تاکہ وہاں سخت سکیورٹی انتظامات کا جواز پیش کرسکے۔
چین کے سرکاری اخبار 'گلوبل ٹائمز' نے ہفتے کو ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ تمام ساتوں افراد کو 14 مئی کو سنکیانگ سے حراست میں لیا گیا جن سے تفتیش کی جارہی ہے۔
خیال رہے کہ تیس اپریل کو سنکیانگ کے درالحکومت ارمچی کے ایک ریلوے اسٹیشن پر دھماکے اور چاقووں کے وار کے نتیجے میں ایک شخص ہلاک اور 79 زخمی ہوگئے تھے۔
حملے کے دوران پولیس کی جوابی کارروائی میں دو حملہ آور مارے گئے تھے جب کہ ان کے دیگر ساتھی فرار ہوگئے تھے۔
یہ حملہ ایسے وقت میں کیا گیا تھا جب چین کے صدر ژی جن پنگ سنکیانگ کے دورے پر تھے جس کے دوران انہوں نے علیحدگی پسندوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا عزم ظاہر کیا تھا۔
چین کی حکومت نے سنکیانگ میں حالیہ مہینوں کے دوران ہونے والی دہشت گردی کی کئی غیر معمولی وارداتوں کا الزام ایغور نسل کے مسلمان علیحدگی پسندوں پر عائد کیا ہے۔
سنکیانگ میں ایغور نسل کے مسلمانوں کی اکثریت ہے جو چینی حکومت پر مذہب اور نسل کی بنیاد پر امتیازی سلوک روا رکھنے کا الزام عائد کرتے ہیں۔
چینی حکومت نے حالیہ وارداتوں کا الزام بھی ماضی کی طرح ایغور علیحدگی پسندوں کی گوریلا تنظیم 'ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ' پر عائد کیا ہے جو سنکیانگ کی چین سے آزادی کی مسلح جدوجہد کر رہی ہے۔
چینی حکومت کا الزام ہے کہ اس تنظیم کو غیر ملکی شدت پسندوں کی مدد اور مالی معاونت بھی حاصل ہے۔
لیکن چین کے ناقدین کا موقف ہے کہ مسلمان علیحدگی پسندوں کی تحریک اتنی موثر نہیں جتنی چینی حکومت دعویٰ کرتی ہے اور چین خطے میں سکیورٹی سے متعلق خدشات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے تاکہ وہاں سخت سکیورٹی انتظامات کا جواز پیش کرسکے۔