نئی دہلی میں پانچ سالہ بچی کے ساتھ جنسی زیادتی کے تین روز بعد بھی مظاہروں کا سلسلہ اتوار کے روز بھی جاری رہا۔ مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ دہلی کے پولیس کمشنر کو ملازمت سے برطرف کیا جائے۔ مظاہرین کا الزام ہے کہ پولیس نے بچی کے اغواء کے بعد معاملے کی سنگینی کو نظر انداز کیا۔ دہلی پولیس نہ صرف بروقت کارروائی کرکے بچی کو بازیاب نہ کراسکی بلکہ پولیس نے معاملہ دبانے کے لیے بچی کے والدین کو پیسہ دینے کے پیشکش بھی کی۔
بھارت کے شہر نئی دہلی میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں شامل شرکاء کا کہنا تھا کہ ملزم کو جو پانچ سالہ بچی کو دو دن تک زیادتی کا نشانہ بناتا رہا، کڑی سزا ملنی چاہیئے۔
ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ نئی دہلی میں زیادتی اور تشدد کا نشانہ بنائے جانے والی پانچ سالہ بچی کی حالت بتدریج بہتر ہو رہی ہے۔ ڈاکٹرز کے مطابق جس وقت بچی کو ہسپتال منتقل کیا گیا تھا، اس کی حالت بہت خراب تھی لیکن اب بچی کی حالت رفتہ رفتہ بحال ہو رہی ہے۔
نئی دہلی میں ہی چار ماہ قبل ایک تئیس سالہ لڑکی کو بس میں اجتماعی جنسی زیادتی اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ تئیس سالہ لڑکی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسی تھی۔ ابھی اس افسوسناک واقعے کی گونج ختم نہ ہوئی تھی کہ نئی دہلی میں ہی ریپ کی اس حالیہ واردات نے عوام کے غم و غصے کو ایک بار پھر ہوا دی ہے۔
بھارت کی حکومت نے ان مسائل سے نمٹنے کے لیے خواتین کی حفاظت کے لیے سخت قوانین بھی بنائے ہیں لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ ان قوانین کے ساتھ ساتھ معاشرے میں خواتین کے ساتھ برتاؤ بدلے بغیر تبدیلی لانا مشکل دکھائی دیتا ہے۔
بھارت کے شہر نئی دہلی میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں شامل شرکاء کا کہنا تھا کہ ملزم کو جو پانچ سالہ بچی کو دو دن تک زیادتی کا نشانہ بناتا رہا، کڑی سزا ملنی چاہیئے۔
ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ نئی دہلی میں زیادتی اور تشدد کا نشانہ بنائے جانے والی پانچ سالہ بچی کی حالت بتدریج بہتر ہو رہی ہے۔ ڈاکٹرز کے مطابق جس وقت بچی کو ہسپتال منتقل کیا گیا تھا، اس کی حالت بہت خراب تھی لیکن اب بچی کی حالت رفتہ رفتہ بحال ہو رہی ہے۔
نئی دہلی میں ہی چار ماہ قبل ایک تئیس سالہ لڑکی کو بس میں اجتماعی جنسی زیادتی اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ تئیس سالہ لڑکی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسی تھی۔ ابھی اس افسوسناک واقعے کی گونج ختم نہ ہوئی تھی کہ نئی دہلی میں ہی ریپ کی اس حالیہ واردات نے عوام کے غم و غصے کو ایک بار پھر ہوا دی ہے۔
بھارت کی حکومت نے ان مسائل سے نمٹنے کے لیے خواتین کی حفاظت کے لیے سخت قوانین بھی بنائے ہیں لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ ان قوانین کے ساتھ ساتھ معاشرے میں خواتین کے ساتھ برتاؤ بدلے بغیر تبدیلی لانا مشکل دکھائی دیتا ہے۔