کرونا وائرس کی وباء کے دوران عائد پابندیاں، مظاہروں کے دوران نامہ نگاروں کو درپیش خطرات اور بڑے پیمانے پر جیل کی بندشیں، ایک میڈیا گروپ کے مطابق مشرقِ وسطیٰ میں آزادی صحافت پر ایسے حملوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور اس سے سب سے زیادہ خواتین صحافی متاثر ہو رہی ہیں۔
جرنلزم میں خواتین کے اتحاد یا سی ایف ڈبلیو آئی جے نامی گروپ نے اپنی مئی 2021 کی رپورٹ میں اس سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران عالمی سطح پر خواتین صحافیوں کے خلاف دھمکیوں اور تشدد کے 348 کیسز کا اندراج کیا ہے جو اسی عرصے میں گزشتہ برس کے مقابلے میں ایک واضح اضافے کو ظاہر کرتا ہے۔
اس غیر منافع بخش گروپ نے، جو صحافت کے میدان میں کام کرنے والی خواتین کے خلاف دھمکیوں اور ہراساں کئے جانے کا ریکارڈ رکھتا ہے، کہا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے ممالک زیادہ خطرناک ثابت ہوئے ہیں۔
ان میں ایران سرِ فہرست ہے، جہاں مئی کے مہینے میں48 میں سے11 صحافیوں کو جیل میں ڈالا گیا جو سب سے بڑی تعداد ہے۔
اس رپورٹ میں بیلا روس اور میانمار میں ذرائع ابلاغ کو متاثر کرنے والی کارروائیوں کے ساتھ ساتھ سعودی عرب، ترکی اور مصر میں خواتین کو حراست میں لینے اور ہراساں کرنے کے واقعات کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔
رپورٹ میں بیان کی گئی تفصیلات مئی کے آخر میں اس گروپ کی میزبانی میں ہونے والی ایک بات چیت کا حصہ بنیں، جس میں لبنان کی فری لانسر لونا صفوان، صحافی اور بلاگر میسا الامعودی اور مصری نژاد امریکی صحافی ریم عبدالطیف نے بھی شرکت کی۔
الامعودی مشرقِ وسطیٰ اور امریکی ذرائع ابلاغ کے لئے ایک عشرے سے زیادہ عرصے تک کام کر چکی ہیں اور سعودی عرب میں خواتین کے حقوق کے لئے آواز بلند کر چکی ہیں ۔ اب وہ ایک آزاد ویب سائٹ "درج" کی بلاگر اور کالم نگار ہیں، جس میں توجہ صنف، اقلیتوں کے حقوق اور ماحولیات کے مسائل پر مرکوز رکھی جاتی ہے۔
اس پینل کے بعد وائس آف امریکہ سے ای میل کے ذریعے ایک انٹرویو میں الامعودی نے کہا کہ ان کے خیال میں صحافیوں کا سب سے بڑا مسئلہ حکام یا حکومتوں کی جانب سے دھمکیاں ہیں۔ اگر آپ خواتین کی حمایت کرنے والےصحافی ہیں، توبیشتر سیاستدان آپ کی حمایت نہیں کریں گے۔
الامعودی کا کہنا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں خواتین صحافی ایک مضبوط اور غیر معمولی تصور پیدا کرتی ہیں۔ اور صحافت میں ان کی تعداد میں اضافہ صحافت کو مزید متوازن بنا سکتا ہے۔
الامعودی کہتی ہیں کہ عربی زبان کے خبر رساں ذرائع میں کام کرتے ہوئے انہوں نے دیکھا کہ کیسے نیٹ ورکس خواتین براڈکاسٹرز کے پروگرام میں نمودار ہونے کو کنٹرول کرتے ہیں۔ مرد اور خواتین رفقاء کار میں فرق نظر آتا ہے جس میں خواتین ان اوقات میں پروگرام کرتی ہیں، جب ناظرین کی تعداد بہت کم ہوتی ہے۔
سی ایف ڈبلیو آئی جے کی ڈائریکٹر کرن نازش کہتی ہیں کہ چیلنجوں کے باوجود خواتین ان امور پر رپورٹنگ میں کامیاب رہی ہیں جو مرکزی دھارے میں رپورٹ ہونے سے رہ جاتے ہیں۔ تاہم نازش کہتی ہیں کہ جب وہ کوئی خبر دیتی ہیں تو وہ فوری اور اہم ہوتی ہے۔ اگر وہ کسی مسئلے پر بات کرتی ہیں تو وہ مسائل اہم اور فوری نوعیت کے ہوتے ہیں اور ان پر ضرور توجہ دی جانی چاہیئے۔
نازش نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ یہ خواتین خبر مضبوط انداز میں دیتی ہیں کیونکہ وہ خود جرات مند ہیں۔
اس پینل میں مصری نژاد امریکی صحافی ریم عبدالطیف بھی شامل تھیں، جو افریقہ میں خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کی تحریک ایفریقن ویمن رائٹس ایڈووکیٹس نامی گروپ کی شریک بانی ہیں اور خود بھی مشکل حالات کا مقابلہ کر چکی ہیں۔ انہوں نے خواتین کے اس اہم کردار کے بارے میں بات کرتے ہوئے جو وہ نیا بیانیہ پیش کر کے ادا کرسکتی ہیں، کہا، کہ اس سے ان لوگوں کو جوابدہ ٹھہرانے میں مدد ملتی ہے جو خواتین کی آواز کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں ۔
ریم عبدالطیف اور پینل میں شریک ان کی باقی ساتھی خواتین نے میڈیا میں کام کرنے والی خواتین میں باہم رابطے مضبوط کرنے اور یک جہتی پر زور دیا۔
نازش نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ سی ایف ڈبلیو آئی جے نامی تنظیم اپنے وسائل صحافیوں کی مدد، حملوں کے اندراج اور انتہائی معاملات میں صحافیوں کا پتہ لگانے پر صرف کرتی ہے۔ اور بات چیت کا اہتمام کرتی ہے تاکہ شریک خواتین صحافی اپنی آواز اٹھا سکیں اور اپنے تجربات بیان کر سکیں ۔
الامعودی کہتی ہیں کہ اس طرح کی گفتگو مفید رہتی ہے مگر صحافت کے میدان میں موجود خواتین کے درمیان رابطے استوار کرنے کے لئے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔