کراچی —
2013ء کئی فنکاروں کی رخصتی کا سال ہے۔ اُن فنکاروں میں سے کئی بہت ہی عظیم تھے ۔۔۔ اتنے کہ شوبزنس کی دنیا ہمیشہ ان کا خلا محسوس کرتی رہے گی۔ ان فنکاروں کو خراج عقیدت پیش کرنے کی غرض سے آئیے ایک مرتبہ پھر ان سے جڑی کچھ باتوں اور کچھ یادوں پر نظر ڈالی جائے۔
مہناز
مہناز پاکستان کی مایہ ناز پلے بیک سنگر تھیں۔ رواں سال کے پہلے مہینے کے19ویں دن، جب مہناز علاج کی غرض سے امریکہ جارہی تھیں، دورانِ سفر بحرین میں انتقال کر گئیں۔ اُن کی عمر 58سال تھی۔ انہوں نے 200 سے زائد فلمی اور تقریباً 1000 غیرفلمی گیتوں کو اپنی آواز سے سجایا اور لوگوں کے دلوں میں اتارا مثلاً۔۔” مجھے دل سے نہ بھلانا“، ”میراپیار تیرے جیون کے سنگ رہے گا“۔۔
مہناز نے شادی نہیں کی تھی۔ وہ اپنے دور کی مشہور و معروف سنگر کجن بیگم کی صاحبزادی تھیں۔ مہناز کا فنی سفر1972ء میں ریڈیو سے شروع ہوا۔ تاہم، بعد میں انہوں نے ٹی وی اور فلموں کے لئے بھی اپنی آواز کا جادو جگایا۔ انہیں ایک دو نہیں 10نگار ایوارڈز سے نوازا گیا۔
زبیدہ خانم
فلمی گلوکارہ زبیدہ خانم کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ انہوں نے 78برس کی عمر میں19اکتوبر کو وفات پائی۔ ان کا فنی کیرئیر 1951ء میں فلم ”بلو“ سے شروع ہوا تھا۔ ان کے گیتوں کے بارے میں اگر یہ کہا جائے کہ انہوں نے لاہور فلم انڈسٹری کو عروج بخشا تو قطعی غلط نہ ہوگا۔ انہوں نے پنجابی اور اردو دونوں زبانوں میں گانے گائے۔ فلم ”شہری بابو“، ”باغی“، ”سولہ آنے“ ،”جٹی“ اور ” شیخ چلی“ کے گانے انہی کی بدولت بام عروج تک پہنچے۔
گلوکارہ ہونے کے ساتھ ساتھ انہوں نے کئی فلموں میں اداکاری کے ہنر بھی آزمائے۔ تاہم، کیمرہ مین اور ڈائریکٹر ریاض بخاری سے شادی کے بعد انہوں نے فلمی دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرلی تھی۔
ریشماں
کلاسیکل سنگر ریشماں کو نئی نسل میں پذیرائی بھارتی فلم ”ہیرو“ کے ایک گانے ”لمبی جدائی“ سے ملی۔ تاہم، اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ وہ شروع ہی سے ایک منفرد گائیکا کی حیثیت سے اپنی ایک الگ پہچان رکھتی تھیں۔ انہیں ”بلبل صحرا“ کا لقب دیا گیا تھا۔
ریشماں کے گائے ہوئے گانوں میں سے کچھ گانوں کو تو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا مثلاً ’ہائے او ربا نئیں لگدا دل میرا’، ’لمبی جدائی’، ’اکھیاں نوں رہن دے اکھیاں دے کول کول‘ اور ’وے میں چوری چوری تیرے نال لائیاں اکھاں وے‘۔ حکومت پاکستان نے انہیں ’ستارہ امیتاز‘ سے نوازا تھا۔ وہ کافی عرصے تک کینسر کے مرض میں مبتلا رہیں اور 3نومبر2013ء کو 66سال کی عمر میں لاہور میں انتقال کر گئیں۔
ریاض الرحمن ساغر
ریاض الرحمن ساغر شاعر اور نغمہ نگار ہونے کے ساتھ ساتھ کہنہ مشق صحافی بھی تھے۔انہوں نے یکم جون کو 72سال کی عمر میں لاہور انتقال کیا۔ فلمی دنیا اور گیت نگاری کے لیے ان کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکے گا۔ وہ بھارتی پنجاب کے شہر بھٹنڈا میں 1941ء میں پیدا ہوئے۔ تاہم، پاکستان بننے کے ساتھ ہی یہاں آبسے۔
انہوں نے پاکستانی فلموں ’کبھی تو نظر ملاوٴ‘، ’چیف صاحب‘، ’سرگم‘، ’گھونگھٹ‘، ’انتہا‘، ’محبتاں سچیاں‘، ’سمجھوتہ ایکسپریس‘ اور ’عشق خدا‘ ‘ کے لئے نغمے تراشے۔۔جبکہ” دوپٹہ تیرا ململ کا‘ اور ”، یاد سجن دی آئی“ جیسے نغمے بھی انہی کے ہیں۔ ان کے کئی گانوں کو حدیقہ کیانی، عدنان سمیع، راحت فتح علی خان اور بھارتی پلے بیک سنگر آشا بھوسلے نے اپنی آوازوں میں گایا ہے۔ ۔ ان میں ’میں تینوں سمجھاوں کی۔۔اور ۔۔ کبھی تو نظر ملاوٴ‘۔۔بھی شامل ہیں۔مجموعی طور پر انہوں نے 2000سے زائد گانے تخلیق کئے۔
قریش پور
سنہ 80کی دہائی کا کون سا ایسا فرد ہوگا جو قریش پور کے نام اور کام سے واقف نہ ہو۔ وہ پی ٹی وی کے شہرت آفاق شو ’کسوٹی‘ کے میزبان تھے۔ اس شو کی بدولت انہیں گھر گھر شہرت ملی۔ انہیں 5اگست کو موت کے فرشتے نے دیکھا اور اپنے ساتھ ہی اس جہاں سے لے جاکر چھوڑا۔ مرحوم 1932ءمیں پیدا ہوئے تھے۔وہ ذرائع ابلاغ کے ماہرتصور کئے جاتے تھے۔ ٹیلی ویژن کے ساتھ ساتھ انہوں نے ناول نگاری اور کالم نگاری میں بھی اپنا لوہا منوایا۔انہوں نے 1972 ء میں پی ٹی وی سے باقاعدہ وابستگی اختیار کی اور1992ء میں کنٹرولر پریزنٹیشن کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔
اداکارہ آسیہ
پاکستان کی پنجابی فلموں کا ایک جانا پہچانا نام۔۔ آسیہ۔۔جنہوں نے اردو فلموں میں بھی اداکاری کے جوہر دکھائے۔ وہ 9مارچ 2013 ء کو کینیڈا میں انتقال کرگئیں۔ وہ عمر کی 65بہاریں دیکھ چکی تھیں۔ خوب صورتی کے سبب انہیں فلم انڈسٹری میں ’پری چہرہ‘ کہا جاتا تھا۔
آسیہ کی کامیاب فلموں میں ہدایت کار شباب کیرانوی کی انسان اور آدمی، دل اور دنیا، مولا جٹ، جیرا بلیڈ، یادیں، وعدہ، ایماندار، غلام، میں بھی تو انسان ہوں، پازیب، پیار ہی پیار، سہرے کے پھول، جوگی، دل اور دنیا، وحشی جٹ، خان اعظم، آخری میدان، جٹ دی کھڑاک، غنڈہ ایکٹ، جٹ دا ویر، بھریا میلہ، چڑھدا سورج، نوکر وہٹی دا، حشر نشر، دو رنگیلے، شیر میدان دا، شریف بدمعاش، لاہوری بدمعاش، تم سلامت رہو شامل ہیں۔
اظہار کاظمی
اظہار ریڈیو، ٹی وی اور اسٹیج کے معروف اداکار اور براڈ کاسٹر تھے۔وہ 30مارچ 2013 کو اس جہان فانی سے رخصت ہوئے۔ انہوں نے 1950ء میں ریڈیو پاکستان سے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا۔ تاہم، ٹیلی ویژن کے لئے بھی خدمات انجام دیں۔ پانچ دہائیوں سے زائد فنی سفر کے دوران اظہار کاظمی ’وائس آف امریکا‘ سے بھی طویل عرصے تک وابستہ رہے۔
منظور نیازی قوال
منظور نیازی کا انتقال 9اپریل کو ہوا۔ وہ نعت، قوالی اور صوفیانہ کلام گانے میں ملکہ رکھتے تھے۔ پاکستان کے ابتدائی دنوں میں قائد اعظم محمد علی جناح نے انہوں ’بلبل دکن‘ کا خطاب دیا تھا۔ ’خواجہ کی دیوانی‘ ان کی مشہور ترین قوالی ہے۔ انہوں نے اپنی خدمات کے عوض تمغہ امتیاز بھی حاصل کیا۔ انتقال کے وقت ان کی عمر 93سال تھی۔
صفیہ رانی
صفیہ ریڈیو ، ٹی وی اور اسٹیج پر اداکاری کا ایک معروف نام تھا۔ وہ رواں سال 25اپریل کواس دنیا سے رخصت ہوئیں۔ انہوں نے 1976ءمیں پاکستان ٹیلی ویڑن پشاور سینٹر سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا۔ انہیں بھی کینسر کے مرض سے آگھیرا تھا اور آخر کار وہ اس بیماری سے کبھی اپنا پیچھا نہ چھڑا سکی۔
نشیلا
ریڈیو، ٹی وی، فلم اور اسٹیج کے ہی ایک اور مزاحیہ اداکار نشیلا نے اسی سال 23جون کو دنیا سے رخصت طلب کی۔ ان کا اصل نام شوکت علی تھا۔ انہیں پی ٹی وی کی معروف سیریل ’عینک والا جن‘ کے ایک کردار سے بے پناہ شہرت ملی۔ اسٹیج کے لئے انہوں نے اپنی پوری زندگی مختص کردی تھی۔ لاہور کا تھیٹر 40سال تک ان کی خدمات کا مظہر رہا ہے۔
مذکورہ لوگوں کے علاوہ سال 2013ء میں ہی 3اگست کو معروف صداکار حسن شہید مرزا، یکم ستمبر کو اداکار منظور مگسی، 13ستمبر کو فلمی ہیرو انور حسین ،23ستمبر کو اداکار جہانگیر خان اور28نومبر کو اداکار عابد بٹ کا انتقال ہوا۔
مہناز
مہناز پاکستان کی مایہ ناز پلے بیک سنگر تھیں۔ رواں سال کے پہلے مہینے کے19ویں دن، جب مہناز علاج کی غرض سے امریکہ جارہی تھیں، دورانِ سفر بحرین میں انتقال کر گئیں۔ اُن کی عمر 58سال تھی۔ انہوں نے 200 سے زائد فلمی اور تقریباً 1000 غیرفلمی گیتوں کو اپنی آواز سے سجایا اور لوگوں کے دلوں میں اتارا مثلاً۔۔” مجھے دل سے نہ بھلانا“، ”میراپیار تیرے جیون کے سنگ رہے گا“۔۔
مہناز نے شادی نہیں کی تھی۔ وہ اپنے دور کی مشہور و معروف سنگر کجن بیگم کی صاحبزادی تھیں۔ مہناز کا فنی سفر1972ء میں ریڈیو سے شروع ہوا۔ تاہم، بعد میں انہوں نے ٹی وی اور فلموں کے لئے بھی اپنی آواز کا جادو جگایا۔ انہیں ایک دو نہیں 10نگار ایوارڈز سے نوازا گیا۔
زبیدہ خانم
فلمی گلوکارہ زبیدہ خانم کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ انہوں نے 78برس کی عمر میں19اکتوبر کو وفات پائی۔ ان کا فنی کیرئیر 1951ء میں فلم ”بلو“ سے شروع ہوا تھا۔ ان کے گیتوں کے بارے میں اگر یہ کہا جائے کہ انہوں نے لاہور فلم انڈسٹری کو عروج بخشا تو قطعی غلط نہ ہوگا۔ انہوں نے پنجابی اور اردو دونوں زبانوں میں گانے گائے۔ فلم ”شہری بابو“، ”باغی“، ”سولہ آنے“ ،”جٹی“ اور ” شیخ چلی“ کے گانے انہی کی بدولت بام عروج تک پہنچے۔
گلوکارہ ہونے کے ساتھ ساتھ انہوں نے کئی فلموں میں اداکاری کے ہنر بھی آزمائے۔ تاہم، کیمرہ مین اور ڈائریکٹر ریاض بخاری سے شادی کے بعد انہوں نے فلمی دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرلی تھی۔
ریشماں
کلاسیکل سنگر ریشماں کو نئی نسل میں پذیرائی بھارتی فلم ”ہیرو“ کے ایک گانے ”لمبی جدائی“ سے ملی۔ تاہم، اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ وہ شروع ہی سے ایک منفرد گائیکا کی حیثیت سے اپنی ایک الگ پہچان رکھتی تھیں۔ انہیں ”بلبل صحرا“ کا لقب دیا گیا تھا۔
ریشماں کے گائے ہوئے گانوں میں سے کچھ گانوں کو تو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا مثلاً ’ہائے او ربا نئیں لگدا دل میرا’، ’لمبی جدائی’، ’اکھیاں نوں رہن دے اکھیاں دے کول کول‘ اور ’وے میں چوری چوری تیرے نال لائیاں اکھاں وے‘۔ حکومت پاکستان نے انہیں ’ستارہ امیتاز‘ سے نوازا تھا۔ وہ کافی عرصے تک کینسر کے مرض میں مبتلا رہیں اور 3نومبر2013ء کو 66سال کی عمر میں لاہور میں انتقال کر گئیں۔
ریاض الرحمن ساغر
ریاض الرحمن ساغر شاعر اور نغمہ نگار ہونے کے ساتھ ساتھ کہنہ مشق صحافی بھی تھے۔انہوں نے یکم جون کو 72سال کی عمر میں لاہور انتقال کیا۔ فلمی دنیا اور گیت نگاری کے لیے ان کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکے گا۔ وہ بھارتی پنجاب کے شہر بھٹنڈا میں 1941ء میں پیدا ہوئے۔ تاہم، پاکستان بننے کے ساتھ ہی یہاں آبسے۔
انہوں نے پاکستانی فلموں ’کبھی تو نظر ملاوٴ‘، ’چیف صاحب‘، ’سرگم‘، ’گھونگھٹ‘، ’انتہا‘، ’محبتاں سچیاں‘، ’سمجھوتہ ایکسپریس‘ اور ’عشق خدا‘ ‘ کے لئے نغمے تراشے۔۔جبکہ” دوپٹہ تیرا ململ کا‘ اور ”، یاد سجن دی آئی“ جیسے نغمے بھی انہی کے ہیں۔ ان کے کئی گانوں کو حدیقہ کیانی، عدنان سمیع، راحت فتح علی خان اور بھارتی پلے بیک سنگر آشا بھوسلے نے اپنی آوازوں میں گایا ہے۔ ۔ ان میں ’میں تینوں سمجھاوں کی۔۔اور ۔۔ کبھی تو نظر ملاوٴ‘۔۔بھی شامل ہیں۔مجموعی طور پر انہوں نے 2000سے زائد گانے تخلیق کئے۔
قریش پور
سنہ 80کی دہائی کا کون سا ایسا فرد ہوگا جو قریش پور کے نام اور کام سے واقف نہ ہو۔ وہ پی ٹی وی کے شہرت آفاق شو ’کسوٹی‘ کے میزبان تھے۔ اس شو کی بدولت انہیں گھر گھر شہرت ملی۔ انہیں 5اگست کو موت کے فرشتے نے دیکھا اور اپنے ساتھ ہی اس جہاں سے لے جاکر چھوڑا۔ مرحوم 1932ءمیں پیدا ہوئے تھے۔وہ ذرائع ابلاغ کے ماہرتصور کئے جاتے تھے۔ ٹیلی ویژن کے ساتھ ساتھ انہوں نے ناول نگاری اور کالم نگاری میں بھی اپنا لوہا منوایا۔انہوں نے 1972 ء میں پی ٹی وی سے باقاعدہ وابستگی اختیار کی اور1992ء میں کنٹرولر پریزنٹیشن کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔
اداکارہ آسیہ
پاکستان کی پنجابی فلموں کا ایک جانا پہچانا نام۔۔ آسیہ۔۔جنہوں نے اردو فلموں میں بھی اداکاری کے جوہر دکھائے۔ وہ 9مارچ 2013 ء کو کینیڈا میں انتقال کرگئیں۔ وہ عمر کی 65بہاریں دیکھ چکی تھیں۔ خوب صورتی کے سبب انہیں فلم انڈسٹری میں ’پری چہرہ‘ کہا جاتا تھا۔
آسیہ کی کامیاب فلموں میں ہدایت کار شباب کیرانوی کی انسان اور آدمی، دل اور دنیا، مولا جٹ، جیرا بلیڈ، یادیں، وعدہ، ایماندار، غلام، میں بھی تو انسان ہوں، پازیب، پیار ہی پیار، سہرے کے پھول، جوگی، دل اور دنیا، وحشی جٹ، خان اعظم، آخری میدان، جٹ دی کھڑاک، غنڈہ ایکٹ، جٹ دا ویر، بھریا میلہ، چڑھدا سورج، نوکر وہٹی دا، حشر نشر، دو رنگیلے، شیر میدان دا، شریف بدمعاش، لاہوری بدمعاش، تم سلامت رہو شامل ہیں۔
اظہار کاظمی
اظہار ریڈیو، ٹی وی اور اسٹیج کے معروف اداکار اور براڈ کاسٹر تھے۔وہ 30مارچ 2013 کو اس جہان فانی سے رخصت ہوئے۔ انہوں نے 1950ء میں ریڈیو پاکستان سے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا۔ تاہم، ٹیلی ویژن کے لئے بھی خدمات انجام دیں۔ پانچ دہائیوں سے زائد فنی سفر کے دوران اظہار کاظمی ’وائس آف امریکا‘ سے بھی طویل عرصے تک وابستہ رہے۔
منظور نیازی قوال
منظور نیازی کا انتقال 9اپریل کو ہوا۔ وہ نعت، قوالی اور صوفیانہ کلام گانے میں ملکہ رکھتے تھے۔ پاکستان کے ابتدائی دنوں میں قائد اعظم محمد علی جناح نے انہوں ’بلبل دکن‘ کا خطاب دیا تھا۔ ’خواجہ کی دیوانی‘ ان کی مشہور ترین قوالی ہے۔ انہوں نے اپنی خدمات کے عوض تمغہ امتیاز بھی حاصل کیا۔ انتقال کے وقت ان کی عمر 93سال تھی۔
صفیہ رانی
صفیہ ریڈیو ، ٹی وی اور اسٹیج پر اداکاری کا ایک معروف نام تھا۔ وہ رواں سال 25اپریل کواس دنیا سے رخصت ہوئیں۔ انہوں نے 1976ءمیں پاکستان ٹیلی ویڑن پشاور سینٹر سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا۔ انہیں بھی کینسر کے مرض سے آگھیرا تھا اور آخر کار وہ اس بیماری سے کبھی اپنا پیچھا نہ چھڑا سکی۔
نشیلا
ریڈیو، ٹی وی، فلم اور اسٹیج کے ہی ایک اور مزاحیہ اداکار نشیلا نے اسی سال 23جون کو دنیا سے رخصت طلب کی۔ ان کا اصل نام شوکت علی تھا۔ انہیں پی ٹی وی کی معروف سیریل ’عینک والا جن‘ کے ایک کردار سے بے پناہ شہرت ملی۔ اسٹیج کے لئے انہوں نے اپنی پوری زندگی مختص کردی تھی۔ لاہور کا تھیٹر 40سال تک ان کی خدمات کا مظہر رہا ہے۔
مذکورہ لوگوں کے علاوہ سال 2013ء میں ہی 3اگست کو معروف صداکار حسن شہید مرزا، یکم ستمبر کو اداکار منظور مگسی، 13ستمبر کو فلمی ہیرو انور حسین ،23ستمبر کو اداکار جہانگیر خان اور28نومبر کو اداکار عابد بٹ کا انتقال ہوا۔