بلوچستان کے دارالحکومت، کوئٹہ میں مسجد کے اندر ہونے والے دھماکے میں پولیس کے ایک اعلیٰ اہلکار سمیت ایک درجن سے زائد افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔
پولیس کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل عبدالرزاق چیمہ نے بتایا ہے کہ جمعے کو کوئٹہ شہر کے نواحی علاقے غوث آباد کے علاقے میں مدرسہ دارالعلوم شریعہ میں ڈی ایس پی امان اللہ ایک مسجد میں دیگر لوگوں کے ساتھ مغرب کی نماز ادا کر رہے تھے۔
انھوں نے بتایا کہ ’’جونہی جماعت کھڑی ہوئی، محراب کے قریب رکھے گئے بارودی مواد میں زوردار دھماکہ ہوا، جس سے مسجد کے امام، ڈی ایس پی امان اللہ سمیت 14 افراد ہلاک اور بیس زخمی ہوگئے۔‘‘
بقول ان کے ’’ہلاک و زخمی ہونے والے تمام افراد کو امدادی اداروں کی گاڑیوں میں سول اسپتال کوئٹہ منتقل کیا گیا۔ اسپتال میں ڈاکڑوں نے دو دیگر افراد کی حالت تشویشناک بتائی ہے اور اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ ہلاکتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے‘‘۔
دھماکے کی ذمہ داری تاحال کسی گروپ یا تنظیم کی طرف سے قبول نہیں کی گئی۔
ڈی ایس پی امان اللہ کے بیٹے ہدایت اللہ نے وی او اے کو بتایا کہ اُن کے بڑے بھائی حاجی نجیب اللہ کو گزشتہ دس دسمبر کو نامعلوم افراد نے کوئٹہ کے نواحی علاقے سریاب روڈ پر فائرنگ کرکے ہلاک کر دیا گیا تھا۔
حساس سیکورٹی ادارے کے ایک اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ دھماکہ خیز مواد مسجد میں محراب کے قریب قالین کے نیچے چُھپا کر رکھا گیا تھا جس میں ٹائمر ڈیوائس سے دھماکہ کیا گیا۔
وزیراعظم عمران خان، فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ، وزیر اعلیٰ بلوچستان اور دیگر نے بم دھماکے کی مذمت کی ہے اور حکام کو ہدایت کی ہے کہ زخمیوں کو تمام ممکنہ امداد فراہم کی جائے۔
بلوچستان میں کئی ماہ تک خاموشی کے بعد رواں ہفتے کے دوران یہ دوسرا جان لیوا دھماکہ ہے۔
اس سے صرف دو روز قبل، یعنی منگل کو کوئٹہ شہر کے مرکزی علاقے میکانگی روڈ پر ایک بم دھماکے میں دو افراد ہلاک اور 18 زخمی ہوگئے تھے۔ اس دھماکے کی ذمہ داری جماعت الحرار کی طرف سے قبول کر لی گئی تھی۔